دنیا

ترکی کا روس کے ساتھ مل کر میزائل نظام تیار کرنے کا عزم

ایس-400 نظام ایک سال سے کم عرصے میں مکمل طور پر ترکی پہنچے گا اور ہم دنیا کے چند ممالک میں شامل ہوں گے، اردوان

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے روس سے میزائل نظام کی خریداری پر امریکا کی جانب سے دی گئیں پابندی کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب اگلا قدم میزائل نظام کو روس کے ساتھ مشترکہ طور پر تیار کرنا ہے۔

خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق طیب اردوان نے روس سے خریدے گئے 'ایس-400' میزائل نظام کی ایک اور کھیپ پہنچنے کے بعد انقرہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی شدید مخالفت کے باوجود روس سے میزائل نظام خرید رہے ہیں۔

امریکا کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ کہتے تھے کہ وہ نہیں خرید سکتے، وہ کہتے تھے کہ میزائل کو لا نہیں سکتے، وہ کہتے تھے کہ ان کے لیے یہ خریدنا ٹھیک نہیں اور آج آٹھواں جہاز پہنچ چکا ہے اور نظام کو اتارنا شروع کردیا گیا ہے’۔

ترک صدر نے کہا کہ میزائل نظام کو ایک سال سے کم عرصے میں مکمل طور پر منتقل کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ‘اپریل 2020 تک ہم میزائل نظام کو مکمل طور پر پہنچا دیں گے اور اس کے ساتھ ہم دنیا میں فضائی دفاعی نظام کے حوالے سے چند ممالک میں شامل ہوں گے’۔

طیب اردوان نے کہا کہ ‘اب اگلا قدم میزائل نظام کو روس کے ساتھ مشترکہ طور پر تیار کرنا ہے’۔

قبل ازیں ترکی کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ روس کے دو مزید کارگو جہاز ترک دارالحکومت انقرہ کے قریب ایئربیس پر لینڈ کر گئے ہیں جو روسی ساختہ ایس-400 نظام کے پرزے لے کر آئے ہیں اور یہ آٹھواں اور نواں جہاز ہے جو نظام کے مختلف حصے لے کر پہنچ گیا ہے۔

خیال رہے کہ امریکا نے ترکی کو روس سے اس نظام کی خریداری سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں نیٹو رکن کی حیثیت سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور ترکی کو 'ایف-35' فائٹر جیٹ طیاروں کے پروگرام سے باہر کردیا جائے گا۔

واشنگٹن کا کہنا تھا کہ روسی ایس-400 کا نیٹو کے ہتھیاروں سے کوئی مقابلہ نہیں ہے اور اس نظام کی خریداری سے روس کو ایف-35 جیٹ کے حوالے سے حساس دستاویزات تک رسائی کا بھی خدشہ ہے۔

ترکی نے امریکا کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دفاعی حوالے سے خریداری اس کا قومی سلامتی کا معاملہ ہے اور روس سے معاہدہ تجارتی ہے جس کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔