کلیم کہانی
تقسیمِ ہند کے بعد جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو ایک بہت بڑا مسئلہ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمان مہاجرین کا تھا۔ فسادات کی وجہ سے برِصغیر کے دونوں حصوں سے ہجرت جاری تھی۔ پاکستان میں آنے والوں کے لیے رہائشی سہولتیں حاصل کرنا ایک جان جوکھم کا کام تھا۔ جسے جہاں کوئی خالی جگہ مل جاتی وہاں بسیرا کرلیتا اور کوشش کرتا کہ ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی جائیداد کسی طریقے سے اس کے نام ہوجائے۔
اُن میں سے بعض دعوے مضحکہ خیز حد تک دروغ پر مبنی ہوتے تھے۔ پاکستان کے معروف قانون دان بیرسٹر عزیزاللہ شیخ اپنی یادداشتوں پر مبنی تصنیف Story Untold (اَن کہی کہانی) میں لکھتے ہیں کہ، ’ایک بار دادا بھائی جو سندھی بولنے والے کچھی تھے اور بمبئی سے تعلق رکھتے تھے مجھ سے ملنے آئے۔ وہ متروکہ جائیداد کے کیس کے سلسلے میں میری خدمات حاصل کرنا چاہتے تھے۔
’قیامِ پاکستان کے بعد ہندو آبادی نے ہندوستان کی جانب ہجرت شروع کردی اور ان کی چھوڑی جانے والی جائیدادوں کو محکمہ متروکہ وقف املاک کی سپرداری میں دے دیا گیا۔ اس محکمہ کے ذمے یہ کام بھی لگایا گیا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو ہندوؤں کی چھوڑی گئی جائیداد اور املاک الاٹ کی جائے۔ تاہم ایسا بھی ہوا کہ ہندوؤں نے مقامی مسلمانوں کو واجبی قیمت پر اپنی املاک بیچیں۔ مقامی مسلمانوں کو املاک بیچنے کا کام بہت عجلت میں کیا گیا۔ یہ املاک (Sale deed) کے تحت فروخت کی گئیں لیکن اس کی قانونی زبان کے بہت سے پہلو تشنہ تھے۔ یہ معاہدے اتنی جلدبازی میں کیے گئے کہ رجسٹرار کے سامنے دونوں فریقوں کی موجودگی کو بھی لائق اعتناء نہیں سمجھا گیا۔