اب یہ تو طے ہے کہ چترال کی گولین وادی میں آنے والا سیلاب ایک گلیشیائی جھیل کے پھٹنے کے سبب تھا۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع خوبصورت وادئ چترال کے بُلند ترین مقام شندور پرپولو میلہ اپنی روایتی خوبصورتی کے ساتھ جاری تھا، دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاحوں کے دل گھوڑوں کی ٹاپوں کے ساتھ دھڑک رہے تھے اور پوری وادی ڈھول کی تھاپ پر رقصاں تھی کہ چترال ہی کی ایک وادی سیلاب کی لپیٹ میں آگئی۔
دنیا نے چترال کے حوالے سے یہ دونوں اچھی بُری خبریں ایک ساتھ سُنیں۔ یہ سیلاب چترال شہر سے 25 کلومیٹر دُور گولین وادی کے روگھیلی گلیشئر کے پھٹنے سے آیا جس سے گولین ویلی روڈ، پانچ پُل، بجلی گھر، گھروں، دکانوں، مویشیوں کے باڑوں اور بڑی تعداد میں باغات اور زرعی اراضی کو نقصان پہنچا جبکہ ازغور کے مقام پر قدرتی جنگلات کے بہت سے قیمتی درخت بھی سیلاب کی نذر ہوگئے۔ کھڑی فصلیں اور فراہمئ آب کے تمام کے تمام پائپ بھی اس سیلاب میں محفوظ نہ رہے۔ راستہ بند ہونے سے گولین کی وادی میں لوگ محصور ہوگئے تھے جنہیں بعد ازاں نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا۔
وہ دیہات جہاں گولین وادی سے پانی فراہم کیا جاتا ہے، وہاں اب بھی ایمرجنسی کی صورتحال برقرار ہے۔ ان میں سرِ فہرست موری پائیں اور برغوزی کے دیہات ہیں۔ موری پائیں کی آنادہ تقریباً 350 افراد پر مشتمل ہے، اور پانی کے لیے یہ گولین پر ہی انحصار کرتا ہے۔ چونکہ علاقے میں فصل کی کاشت کا سیزن ہے اس لیے کاشت کار انتہائی پریشان ہیں۔