جج ارشد ملک مبینہ ویڈیو:سپریم کورٹ میں درخواست سماعت کے لیے مقرر
سپریم کورٹ میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کے معاملے کی انکوائری کے لیے دائر درخواست 16 جولائی کو سماعت کے لیے مقرر کردی گئی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ 16 جولائی کو درخواست کی سماعت کرے گا۔
خیال رہے کہ شہری اشتیاق احمد مرزا کی جانب سے گزشتہ روز چوہدری منیر صادق ایڈووکیٹ کی توسط سے سپریم کورٹ میں اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کے معاملے کی انکوائری کے لیے آئینی درخواست دائر کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں:جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو: تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر
سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست میں وفاقی حکومت، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کو فریق بنایا گیا ہے۔
شہری کی جانب سے درخواست میں ویڈیو کے مرکزی کردار ناصر بٹ اور پیمرا کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ 6 جولائی کو مریم نواز اور دیگر نے پریس کانفرنس کی جس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے حوالے سے ویڈیو دکھائی گئی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ آزادی سے کام نہیں کرتی اور بلیک میل ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ جج ارشد ملک نے جوابی پریس ریلیز میں مریم نواز کے لگائے گئے الزمات کی تردید کی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سارے معاملے کی انکوائری سے عدلیہ کے وقار، عزت اور آزادی پر اٹھائے گئے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:وزارت قانون نے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا
واضح رہے کہ اسلام ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹا کر ان کی خدمات واپس متعلقہ محکمے کو بھجوا دی تھیں جس کے بعد وفاقی وزارت قانون نے انہیں کام کرنے سے روک دیا ہے۔
اسلام آباد میں وزیر قانون فروغ نسیم نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے موصول خط میں کہا گیا ہے کہ بیان حلفی اور پریس ریلیز کے تناظر میں جج ارشد ملک کواحتساب عدالت نمبر 2 کے جج کے عہدے سے سبکدوش کردیا جائے اور اپنے متعلقہ ادارے لاہور ہائی کورٹ کو رپورٹ کریں۔
ڈاکٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو دیکھا گیا اور فوری طور پر جج ارشد ملک کو مزید کام کرنے سے روک دیا گیا ہے اور انہیں محکمہ قانون کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے 6 جولائی کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مبینہ طور پر بغیر ثبوت کے سزا سنانے کا اعتراف کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں:ویڈیو تنازع: اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ
مریم نواز کا کہنا تھا کہ میڈیا پر نواز شریف پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے شرمناک الزامات لگے لیکن یہ الزامات عدالت میں ثابت نہیں ہوئے مگر پھر بھی انہیں سزا دی گئی۔
انہوں نے کہا تھا کہ جب ان کی تین نسلوں کے احتساب کے بعد بھی ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تو مفروضوں کی بنیاد پر فیصلے سنا دیے گئے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ عدالت میں کہا گیا کہ ثبوت ہمارے پاس نہیں تھے جبکہ ہم نے 50 سال پرانا ریکارڈ بھی عدالت کو فراہم کیا لیکن ہمارے کسی ثبوت کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مقدمات شروع ہونے سے قبل ہی فیصلے کر لیے گئے تھے۔