وزارت قانون نے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا
وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے خط کے تناظر میں احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک کو مزید کام کرنے سے روک دیا ہے اور انہیں لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز کے فیصلے پر کہا ہے کہ اس وقت تک کوئی سزا معطل نہیں ہوسکتی جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلہ نہ کرے کہ جج ارشد ملک نے دباؤ میں فیصلہ دیا یا نہیں۔
اسلام آباد میں وزیر قانون نے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ہائیکورٹ کی جانب سے موصول خط میں کہا گیا ہے کہ بیان حلفی اور پریس ریلیز کے تناظر میں جج ارشد ملک کواحتساب عدالت نمبر 2 کے جج کے عہدے سے سبکدوش کردیا جائے اور اپنے پیرنٹ ڈپارٹمنٹ لاہور ہائی کورٹ کو رپورٹ کریں۔
ڈاکٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو دیکھا گیا اور فوری طور پر جج ارشد ملک کو مزید کام کرنے سے روک دیا ہے اور انہیں محکمہ قانون کو رپورٹ کرنے کا کہا گیا ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پریس ریلیز اور بیان حلفی دیکھنے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ارشد ملک کہتے ہیں کہ انہیں کو کسی سیاہ سفید کو دیکھے بغیر فیصلہ کیا، مجھے رشوت دینے اور دھمکیاں دینے کی کوشش کی گئی اور اگر اس بیان کو دیکھیں تو پھر تو جج ارشد ملک نے میرٹ پر فیصلہ کیا ہے۔
بیان حلفی کے بارے میں وزیر قانون نے بتایا کہ اس کے مطابق جج ارشد ملک پر ہر قسم کا دباؤ تھا لیکن پاکستان اور نیب کے قانون کے تحت کوئی بھی شخص کسی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے تو اس کی سزا الگ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 31 اے کہتا ہے کہ کوئی بھی شخص انصاف کی راہ، تحقیقات، عدالتی فیصلے میں رکاوٹ بنتا ہے تو اس پر 10 سال کی سزا ہوسکتی ہے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ یہ کیس اس حکومت نے تو نہیں بنایا اور نہ ہی اس کی تحقیقات اس حکومت نے نہیں کی، نواز شریف کے کیس میں اگر اتنا دباؤ تھا تو پھر تو انہیں دونوں کیسز میں سزا ہوجاتی لیکن جج نے انہیں ایک کیس میں بری کردیا جبکہ ایک میں سزا سنائی۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ العزیزیہ اسٹیل ملز کے فیصلے کے خلاف اپیل کو اسلام آباد ہائی کورٹ دیکھ رہا ہے اور جب تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک وزارت قانون، نیب یا کوئی بھی کیس کے بارے میں مزید کارروائی نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرنا ہے، اس دوران کوئی سزا بڑھائی یا کم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا یہ ایک قانونی معاملہ ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا احتساب عدالت کے جج نے فیصلہ کسی دباؤ میں دیا۔
پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک کے مطابق انہوں نے کوئی دباؤ میں فیصلہ نہیں دیا لیکن ویڈیوز کو بھی اسی تناثر میں دیکھا جائے گا، تاہم کسی کو عدالتوں پر دباؤ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
دوران گفتگو ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں واضح کہا ہے کہ مجھے نہیں پتا تھا کہ میری تقرری کس وجہ سے کی جارہی ہے۔
نواز شریف کے خلاف کیس کے میرٹ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں لندن کے فلیٹس کی منی ٹریل مانگی گئی ہے، جج کے اقدام سے لندن کے فلیٹ ختم نہیں ہوجاتے، یہ کیس ایسا نہیں جو جج کے ویڈیو یا بیان پر منحصر ہو۔
عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کی تحقیقات ہونی چاہیے، شہزاد اکبر
دوسری جانب معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک کا بیان حلفی ایک ہی طرف اشارہ کرتی ہے، اس میں وہی لفظ لکھا ہوا ہے جو پاناما کے فیصلے میں تھا اور وہ لفظ ’مافیا ‘ کا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بیان حلفی کے مطابق جج ارشد ملک سے 2 مواقع پر رابطے کیے جاتے ہیں، ایک اس وقت جب نواز شریف کے خلاف کیس چل رہا تھا تو ناصر جنجوعہ، ماہر جیلانی اور ناصر بٹ رابطہ کرتے ہیں، یہ لوگ لالچ اور دھمکیاں بھی دیتے ہیں جبکہ دوسرا موقع فیصلے کے بعد کا ہے۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ جج کا تقرر بھی اپنے مقاصد کے لیے کروایا جاتا ہے، لہٰذا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ تقرر کیسا ہوا اور اس میں کون ملوث تھے کیونکہ اس عدالت کے لیے تقرر میں وزیر قانون، سیکریٹری قانون، وزیر اعظم کا دفتر بھی شامل ہوتا ہے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ حلفیہ بیان میں جج کہہ رہے ہیں کہ ان کا تقرر کروایا گیا، اس پوری اسکیم کا آغاز تقرر سے ہوتا ہے جس کے بعد انہیں 10 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس دوسرے جج کو منتقل بھی انہیں کی درخواست پر ہوا تھا کیونکہ یہ کیس پہلے جج محمد بشیر کی عدالت میں تھا لیکن ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا، جس کے بعد یہ کیس جج ارشد ملک کی عدالت میں گیا تھا۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ پورا منصوبہ تھا کہ کسی طرح پسند کا فیصلہ لے لیا جائے لیکن جب اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں آتا تو بیان حلفی کے مطابق فروری 2019 سے ان سے دوبارہ رابطہ کیا جاتا ہے اور نیا کردار خرم یوسف اس میں شامل ہوتا ہے جبکہ اس کے بعد ایک اور کردار میاں طارق سامنے آتا ہے۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ جج کے بیان حلفی کے مطابق میاں طارق کی وجہ سے بلیک میلنگ شروع ہوتی ہے اور جج کو ایک ویڈیو دکھائی جاتی ہے، جس کے بعد وہ بلیک میل ہونا شروع ہوئے، اس کے علاوہ اس میں شدید الزامات لگائے گئے۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ بیان حلفی میں میاں نواز شریف کا نام لیا گیا ہے کہ ضمانت کے دوران جاتی امرا میں ان کو سزا دینے والے جج نے ان سے ملاقات کی کیونکہ ناصر بٹ جج کو بلیک میل کرکے وہاں لے کر گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جج ارشد ملک اپنے بیان حلفی میں کہتے ہیں ان کی ملاقات حسین نواز سے کروائی گئی اور انہیں 50 کروڑ روپے اور اہل خانہ کو برطانیہ میں سیٹ کرنے کی پیشکش کرتے ہیں کہتے ہیں کہ آپ کو باہر سے ہی ایک ویڈیو بیان میں استعفیٰ دینا ہے۔
شہزاد اکبر نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نیب کے قانون میں بھی واضح ہے کہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ پر سزا ہوسکتی ہے، تاہم اب یہ دیکھنا ہوگا کہ اس پوری اسکیم کے پیچھے کون ہے، کس طرح سے جج کو سازش، دھمکیاں دے کر بلیک میل کیا گیا جبکہ ان ویڈیوز کی بھی تحقیات ہونی چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونی کی کوشش کرنے پر تفتیش ہونی چاہیے، مجھے اس (مریم نواز کی) پریس کانفرنس کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کچھ لاچار لوگ جو وہاں بیٹھے تھے وہ بھی اس ضمن میں آگئے ہیں کہ کیا 31 اے کا اطلاق ان پر بھی ہوتا ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیاست تنگ گلی میں جاچکی ہے اور اس کیس کو اب بھی سیاست سے ڈیل کیا جارہا لیکن آخر میں منی ٹریل کا معاملہ ہی سامنے آئے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کی بخشش تب تک نہیں ہوسکتی جب تک منی ٹریل نہیں ہے، ٹرائل میں آپ کو سزا ہوچکی ہے، جس پر آپ نے ڈرامہ رچانے کی کوشش کی لیکن اس سزا کا خاتمہ صرف عدلیہ ہی کرسکتی ہے۔
خیال رہے کہہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مبینہ طور پر متنازع ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ترجمان اسلام آباد ہائی کورٹ نے بتایا تھا کہ احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ارشد ملک کو ہٹانے کے لیے وزارت قانون و انصاف کو خط لکھ دیا گیا۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی تھی کہ وہ جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹانے اور انہیں لاہور ہائی کورٹ کے پیرنٹ ڈپارٹمنٹ میں واپس بھیجنے کے لیے وزارت قانون کو خط لکھیں۔