پاکستان

آئی ایم ایف نے (ن) لیگ، پی ٹی آئی کو ناقص پالیسیوں کا ذمہ دار ٹھہرادیا

ادارے نے 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج پر اپنی اسٹاف رپورٹ میں اقتصادی مشکلات اور اصلاحاتی اقدامات میں تاخیر کو بیان کیا۔

اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ملک کو درپیش سخت اقتصادی چیلنجز کے لیے غلط پالیسیوں اور ناقص پالیسی اقدامات پر بالترتیب دو سیاسی حکومتوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ذمہ دار ٹھہرا دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے منظور 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج پر اپنی اسٹاف رپورٹ میں ادارے نے یہ پس منظر بیان کیا کہ کس طرح اقتصادی مشکلات پیدا ہوئیں اور کیسے اصلاحاتی اقدامات میں تاخیر کی گئی۔

براہ راست دونوں حکومتوں کا نام لیے بغیر آئی ایم ایف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو غیرمتوازن پالیسیوں اور نامکمل اصلاحات کے لیے ذمہ دار قرار دیا۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف پروگرام: اگلے سال کھربوں روپے کے مزید ٹیکس لگائے جائیں گے

ادارے نے بتایا کہ ’ غلط اقتصادی پالیسیوں میں بڑے مالی خسارے، کمزور مانیٹری پالیسی اور زیادہ ایکسچینج ریٹ کا دفاع ، ایندھن کی کھپت اور حالیہ برسوں میں قلیل مدتی ترقی لیکن بتدریج مائیکرو اکنامک بفرز میں کمی، بڑھتے ہوئے بیرونی اور عوامی قرضے اور ختم ہوتے بین الاقوامی ذخائر شامل تھے۔

اگرچہ اقتصادی ترقی نسبتاً تیز رہی اور ترقی کی اوسط شرح 5فیصد کے قریب ہونے کے باجود کھپت اور درآمد پر مبنی ترقی کے ماڈل کو سپورٹ کرنے والی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے مائیکروانکامک خطرات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

خاص طور پر پرو سیکلیکل مالی پالیسیوں نے مالی سال 2018 کے مالیاتی خسارہ میں جی ڈی پی کا 6.5 فیصد اضافہ ہوا، جو بجٹ سے 2.5 فیصد زیادہ تھا جس نے عوامی قرض کو جی ڈی پی کے 75 فیصد تک پہنچا دیا۔

اسی طرح آئی ایم ایف نے موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کو تاخیر اور اصلاح کے لیے کیے گئے غیر اطمینان بخش پالیسی اقدامات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا، ساتھ ہی یہ بتایا گیا کہ ایکسچینج ریٹ میں کچھ کمی اور سخت مانیٹری پالیسی کے باوجود اپریل 2019 تک غیرملکی زرمبادلہ میں بڑی مداخلت دیکھنے میں آئی۔

آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا کہ ’اسی طرح 2 بجٹ ترامیم کے باوجود مالی سال کی پہلی ششماہی میں مالی تاخیر نمایاں رہیں، جبکہ بجلی اور گیس ٹیرف میں اضافہ مالی نقصانات کا خلا مکمل کرنے کے لیے کافی نہیں تھا‘۔

ساتھ ہی یہ بھی نشاندہی کہ گئی کہ دوطرفہ قرض دہندگان کی جانب سے قلیل مدت میں اہم مالی امداد فراہم کی گئی لیکن بنیادی مسائل کو حل کرنے فوری عمل نہیں کیا گیا جس کے باعث آئندہ مالی سالوں میں قرض ادائیگیوں میں اضافہ ہوگا‘۔

لہٰذا کمزور اعتماد کے باعث اقتصادی سرگرمیاں مجموعی طور پر سست ہوئیں اور مہنگائی میں اضافہ ہوا جبکہ بڑے پیمانے پر مینوفکچرنگ انڈیکس، مقامی سیمنٹ کی ترسیل اور موٹر گاڑیوں کی فروخت میں مسلسل کمی اقتصادی سرگرمیوں میں کمی کی تصدیق کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ مالی عدم توازن جاری ہے اور 2 ضمنی بجٹ پیش کرنے کے باوجود (فنڈز کے علاوہ) مجموعی مالی خسارہ 5.1 فیصد کے بجٹ ہدف کے مقابلے میں جی ڈی پی کے 7 فیصد سے بڑھ گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو آئی ایم ایف پیکج کی پہلی قسط موصول

فنڈ کے مطابق ’یہ خرابی نمایاں مالیاتی شارٹ فال کی وجہ سے کاربند ہے اور یہ بجٹ ہدف سے متعلق جی ڈٰ پی کے 1.4 فیصد کے برابر ہے‘۔

آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نئے پروگرام کو لینے کے لیے پرعزم ہے لیکن اس کا آؤٹ لک کافی خطرات سے مشروط ہے، یہ خطرات بنیادی طور پر مقامی پالیسی پر عملدرآمد سمیت بیرونی واقعات سے تعلق رکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا وقت پر فںڈ کی ادائیگی میں پاکستانی کی صلاحیت کافی تھی لیکن یہ ’معمول کے خطرے سے زیادہ‘ مشروط تھی۔