دنیا

متحدہ عرب امارات کا یمن میں فوجیوں کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ

اس معاملے پر ایک عرصے سے تبادلہ خیال ہورہا، اماراتی حکومت پہلے فوج کے بجائے امن کے منصوبے کی طرف بڑھ رہی ہے، عہدیدار

دبئی: متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ وہ جنگ زدہ یمن سے فوج کو واپس بلا کر ان کی دوبارہ تعیناتی اور ان کی تعداد کم کررہا ہے اور ’پہلے فوج‘ کی حکمت عملی سے ’پہلے امن‘ کے منصوبے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

یو اے ای سعودی اتحادی فوج کا اہم شراکت دار ہے، جس نے 2015 میں یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف صدر عبدربہ منصور ہادی کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت کی حمایت میں مداخلت کی تھی۔

اس حوالے سے یو اے ای کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ بحر احمر کے شہر حدیدہ میں فوجیوں کی تعداد کم کرنے کے لیے ہمارے پاس اسٹریٹجک وجوہات ہیں اور یہ تاکیدی وجوہات ہیں‘۔

مزید پڑھیں: یمن جنگ کی وجہ برطانیہ،امریکا کی سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی ہے، ایران

انہوں نے کہا کہ یہ اس کے لیے آگے بڑھنے سے بہت زیادہ ہے جسے میں پہلے فوج کی حکمت عملی سے پہلے امن کی حکمت عملی کہوں گا اور میرے خیال سے یہ وہی ہے جو ہم کر رہے ہیں۔

تاہم عہدیدار نے یمن حکومت اور سعودی اتحاد کے لیے یو اے ای کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی پر ایک سال سے زائد عرصے سے تبادلہ خیال ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی آخری لمحات کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل طریقہ کار ہے اور ظاہر سی بات ہے اتحاد میں اس پر ہمارے ساتھیوں، سعودیوں سے واضح طور پر بات چیت کی گئی ہے‘۔

دوسری جانب اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں یمن میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پرعزم ہیں۔

یو اے ای کے فوجیوں کی دوبارہ تعیناتیوں سے متعلق سوال کے جواب میں ریاض میں ایک نیوز کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ’اتحاد میں شامل متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک اپنے آپریشن اور اسٹریٹجک مقاصد کے حصول کو جاری رکھیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ: یمن جنگ بندی کی نگرانی کیلئے کمیشن کی منظوری

ادھر یمنی فوج کے حکومتی عہدیدار کے مطابق حوثیوں سے لڑنے والی یو اے ای کے فوجیوں نے حدیدہ کے تقریباً 130 کلومیٹر جنوب میں کھوکھا کے مقام پر فوجی بیس کو ’مکمل خالی‘ کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یو اے ای نے کھوکھا سے اپنے حصے کے بھاری ہتھیار کو ہٹا لیا ہے لیکن وہ سعودی اتحاد اور حکومت کے ساتھ یمن کے مغربی کنارے فوجی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ کے ماہر جیمس ڈورسے کا کہنا تھا کہ دوبارہ تعیناتی یمن کے معاملے پر سعودی عرب اور یو اے ای کے نقطہ نظر میں ’طویل عرصے سے اختلاف‘ کی عکاسی کرتی ہے۔


یہ خبر 09 جولائی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی