پشاور: بی آر ٹی منصوبہ مکمل ہونے کی ایک اور تاریخ سامنے آگئی
پشاور: حکومت خیبر پختونخوا نے طویل عرصے سے التوا کا شکار بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تکمیل کی ایک اور حتمی تاریخ جاری کردی۔
منصوبہ مکمل ہونے کے حوالے سے حتمی تاریخ کے متعدد اعلانات کے بعد اب کہا گیا کہ رواں برس کے اختتام تک منصوبہ فعال ہوجائے گا۔
ڈان کو دستیاب ہونے والی تفصیلات کے مطابق اب تک میگا پروجیکٹ کی مرکزی راہداریوں (کوریڈورز) کام 85 فیصد اور بس ڈپوز اور اس سے منسلک سہولیات کا 65 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور: بی آر ٹی کی 6 ماہ میں تکمیل کیلئے ٹھیکیدار کو اضافی رقم دینے کا انکشاف
اس کے علاوہ منصوبے کے مرکزی کوریڈورز اور منسلک راستے 31 اکتوبر 2019 تک مکمل ہوجائیں گے جبکہ چمکنی ڈپو اور ڈبگڑی پر سہولیات کی تنصیب کا کام ستمبر کے اختتام تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔
تاہم حیات آباد بس ڈپو آئندہ برس مارچ تک مکمل تعمیر ہونے کا امکان ہے، اس کے علاوہ ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں کی جاچکی ہیں اور اب کسی کا کلیم زیر التوا نہیں۔
مذکورہ تفصیلات میں بتایا گیا کہ منصوبے کے کچھ پہلوؤں پر اس کے لیے فنڈ فراہم کرنے والے ادارے ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے تحفظات کو دور کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: پشاور: بی آر ٹی منصوبے کے باعث 400 ٹریفک اہلکار مختلف امراض میں مبتلا
خیال رہے کہ اے ڈی بی نے بس اسٹیشنز کی فِنیشنگ، اسٹیشنز پر عملے کے لیے بیت الخلا کی تعمیر، کیسل کرب، چینلز کی قطار بندی، سمت کا کا تعین کرنے والی علامات، تنگ موڑ کو کشادہ کرنے اور دیگر مسائل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
چنانچہ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے ایک وفد کے حالیہ دورے میں یہ بات سامنے آئی کہ تقریباً 90 فیصد مسائل حل کرلیے گئے ہیں جس کے بعد پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو کام مزید جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
خیال رہے کہ صوبائی حکومت اور بی آر ٹی پر کام کرنے والے ادارے پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اکتوبر 2017 میں اس کے آغاز کے بعد 6 ماہ یعنی 20 اپریل 2018 تک اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور کے بی آر ٹی منصوبے کے لیے 20 نئی بسیں پہنچادی گئیں
تاہم ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد منصوبے کے منتظمین بدل بدل کر اس کی تکمیل کی مختلف تواریخ 20 مئی سے 30 جون، 31 دسمبر سے 23 مارچ 2019 بتاتے رہے۔
اس دوران منصوبے کی ابتدائی لاگت بھی 49 ارب روپے سے بڑھ کر 68 ارب روپے تک جاپہنچی ہے۔
یہ خبر 9 جولائی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔