ڈولی دشمنِ جان ہے اور زہرِ قاتل ہے لیکن اس کی چاہ میری رگ رگ میں نشہ بن کر دوڑتی ہے۔ دس بیس دن تو گزر ہی جاتے ہیں کسی نا کسی طرح لیکن پھر جسم ٹوٹنے لگتا ہے۔ ہر چہرے میں ڈولی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر اس کی کال آجاتی ہے اور میں بے اختیار ہو کر گاڑی باہر نکالتا ہوں اور اس کے پاس پہنچ جاتا ہوں۔ پانچ، چھ گھنٹے اس کی مہکتی قربت میں گزرتے ہیں تو دل کو قرار آتا ہے۔
میں ایک شریف آدمی ہوں لیکن ڈولی کے معاملے میں میری ساری شرافت طاق پر دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ شیطان ایسا بہکاتا ہے کہ پھر نا کردار اور شرافت یاد رہتی ہے اور نا بیوی بچے اور ان کے سامنے میری نام نہاد شرافت کا کھڑا اونچا بت، صرف ڈولی اعصاب پر سوار ہوتی ہے۔
وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ آسمان پر سویرے سے ہی گہرے کالے بادلوں نے ڈیرا ڈال رکھا تھا۔ پھر دوپہر تک تیز بارش بھی شروع ہوگئی۔ اب اس ظالم موسم میں ڈولی کا فون نا آتا تو اور کس کا آتا؟ اُدھر ڈولی نے حکم صادر کیا اور اِدھر ڈولی کے غلام نے گاڑی نکالی اور اس کے پاس پہنچ گیا۔
پہلے کی طرح پانچ، چھ گھنٹے اس کی قربت میں سب کچھ بھول کر گزرے۔ لیکن جب واپسی کے لیے گاڑی میں بیٹھا تو اپنی دنیا میں ایک جھٹکے کے ساتھ واپس آگیا۔
ماڈل ٹاؤن سے باہر فیروزپور روڈ پر نکلتے نکلتے میرے دل میں پچھتاوے کی ٹھنڈی آگ خوب اچھی طرح بھڑک چکی تھی۔ ضمیر نے گن گن کر ایسے کچوکے لگائے کہ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ توبہ کرنے کا بھی سوچا لیکن پھر خیال آیا کہ کیا فائدہ؟ پندرہ، بیس دن گزریں گے، ڈولی پھر پیار سے بلائے گی، شیطان پھر بہکائے گا اور میں پھر اپنا گناہ ہمیشہ کی طرح دوہرا دوں گا۔
کلمہ چوک کے سگنل پر گاڑی کچھ دیر کو کھڑی کی تو اچانک ایک عجیب و غریب بابے نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اچک کر اگلی سیٹ پر میرے برابر بیٹھ گیا۔
'ارے! ارے! کیا کر رہے ہو؟ کون ہو تم؟' میں نے بوکھلا کر پوچھا۔
مجھے پورا یقین تھا کہ وہ کوئی راہزن تھا اور میرے موبائل اور بٹوے اور شاید گاڑی پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہتا تھا۔ اب میں انتظار کر رہا تھا کہ وہ کب پستول نکالتا ہے اور اپنی ڈیمانڈ میرے سامنے رکھتا ہے۔
مگر ویسا کچھ نہیں ہوا جیسا میں سوچ رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ میری ہی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ گورا چٹا رنگ، کالا لباس اور بڑی بڑی کالی آنکھیں۔ اس کے وجود سے صندل کی خوشبو پھوٹ رہی تھی جو باوجود تیز ہونے کے، بُری نہیں محسوس ہورہی تھی۔
'گھبراؤ نہیں عبیداللہ! نا میں ڈاکو ہوں اور نا ہی کوئی مانگنے والا۔' اس نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔
'تو پھر کون ہو؟ اس طرح میری گاڑی میں بلا اجازت کیوں گھسے ہو؟ اور تمہیں میرا نام کیسے معلوم ہے؟' میں نے گھبرا کر پوچھا۔
'میں؟' اس نے میری آنکھوں میں جھانک کر کہا۔
'میں شیطان ہوں۔'
اس کے سنجیدہ انداز اور اس کی آنکھوں سے کسی بھڑکتے الاؤ کی روشنی جھلکنے پر، ایک لمحے کے لیے تو میری روح ہی کانپ گئی۔ پھر میں نے اس کے الفاظ پر غور کیا تو بے اختیار ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا۔
'شیطان؟ تم شیطان ہو؟'
'ہاں بالکل!' اس نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ 'اسی لیے مجھے سب معلوم ہے۔ مجھے تمہارے نام کا علم ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس وقت تم ڈولی سے مل کر آ رہے ہو اور تمہاری روح اور ضمیر ندامت کے بھاری بوجھ تلے دبے ہیں۔'
شہریار خاور
شہریار خاور گزشتہ کئی برسوں سے اردو اور انگریزی افسانے لکھ رہے ہیں اور ان کی لکھی ایک فلم 'سین زوخت'، 2018ء میں میامی فلم فیسٹیول میں چار ایوارڈ جیت چکی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔