دنیا

سوڈان: فوج اور مظاہرین کے درمیان تاریخی معاہدہ طے

فریقین نے خود مختار کونسل کے قیام پر اتفاق کیا ہے جو فوجی اور شہری حکام کے درمیان منتقل ہوتی رہے گی۔

سوڈان کی فوجی قیادت اور مظاہرین کے درمیان کئی مہینوں سے جاری بحران کے خاتمے کے لیے حکومتی طرز عمل سے متعلق تاریخی معاہدہ طے پاگیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ تاریخی معاہدہ دو روز سے جاری مذاکرات کے بعد کیا گیا ہے۔

افریقن یونین کی جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنے والے محمد الحسن لیبیت نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں فریقین نے ایک خود مختار کونسل کے قیام پر اتفاق کیا ہے اور یہ 3 سال یا اس سے مختصر عرصے میں فوجی اور سویلین حکام کے درمیان منتقل ہوتی رہے گی۔

واضح رہے کہ کئی ماہ سے جاری مظاہروں کے بعد اپریل میں فوج، صدر عمر البشیر کو برطرف کرکے اقتدار میں آئی تھی جس کے بعد سوڈان بدترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔

مزید پڑھیں: سوڈان میں احتجاج کے دوران ہلاکتوں کی تعداد پر تضاد

مظاہرین کی جانب سے سویلین حکومت قائم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا تھا جس پر فوجی قیادت آمادہ نہیں تھی۔

حکمراں فوجی کونسل کے نائب سربراہ جنرل محمد حمدان دقلو نے ایک بیان میں کہا کہ ’ ہم اس تبدیلی میں حصہ لینے والی تمام سیاسی قوتوں اور فوجی تحاریک کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اس معاہدے میں سب شامل ہیں اور کوئی بھی اس سے باہر نہیں ہے‘۔

خیال رہے کہ 3 جون کو دارالحکومت خرطوم میں آرمی ہیڈکوارٹرز کے باہر مظاہرین کے کیمپ پر بدترین کارروائی میں درجنوں مظاہرین ہلاک اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے، جس کی وجہ سے دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔

محمد الحسن لیبیت نے نئی گورننگ باڈی سے متعلق زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں لیکن اہم رہنما احمد الربی نے بتایا کہ اس میں احتجاجی تحریک کے 5 افراد شامل ہیں اور فوج کے 5 افراد شامل ہیں۔

ایتھوپیا اور افریقی یونین کے نمائندگان کی جانب سے ثالثی کا کردار نبھانے کا بعد حالیہ مذاکرات کا آغاز ہوا تھا، جنہوں نے ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے تجاویز کا مسودہ پیش کیا تھا۔

’آزادانہ تحقیقات ‘

دستاویز میں 3 سال کے دوران اقتدار منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس میں نئی حکومت کے صدر کا تعلق فوج سے ہوگا اور وہ 18 ماہ تک عہدے پر رہیں گے اور اگلے 18 ماہ شہری قیادت کو صدارت کا موقع دیا جائے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ دونوں فریقین نے فوج کو قیادت دیے جانے پر اتفاق کیا ہے یا نہیں۔

محمد الحسن لیبیت نے بتایا کہ دونوں فریقین نے نئی پارلیمنٹ کے قیام کو ملتوی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اس سے قبل مئی میں فوجی جرنیلوں اور احتجاجی رہنماؤں نے 3 سو رکنی پارلیمنٹ کے قیام پر اتفاق کیا تھا جس میں دو تہائی قانون ساز احتجاجی تحریک کے ارکان پر مشتمل ہونے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سوڈان میں فوجی بغاوت، صدر عمر البشیر گرفتار

محمد الحسن لیبیت نے بتایا کہ دونوں فریقین نے حالیہ چند ہفتوں میں ہونے والے پر تشدد واقعات کی تفصیلی، شفاف، قومی اور آزادانہ تحقیقات پر بھی اتفاق کیا ہے۔

دی الائنس فار فریڈم اینڈ چینج کے مطابق ملک بھر میں ہونے والے چھاپوں میں 136 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سے 100 سے زائد 3 جون کو ہلاک ہوئے تھے۔

دوسری جانب وزارت صحت کے مطابق اسی عرصے کے دوران 78 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ چھاپے فوجی یونیفارم میں ملبوس افراد کی جانب سے کیے گئے تھے جبکہ حکمراں فوجی قیادت کا اصرار ہے کہ انہوں نے دھرنے کو پرتشدد طریقے سے منتشر کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔

ایتھوپیا کے نمائندے نے گزشتہ روز کہا تھا کہ نئی گورننگ باڈی کا قیام ہی دونوں جماعتوں کے درمیان اختلاف کی بنیادی وجہ ہے۔

شہری حکومت کے لیے طلبہ کی ریلی

سوڈان میں مدنی، القضارف اور سنار شہروں میں واقع اسکولوں کے ہزاروں طلبہ نے شہری حکومت کے حق میں احتجاج کیا۔

اس سے قبل دارفور باغی گروہ سے تعلق رکھنے والے 235 جنگجو پر مشتمل گروہ کو رہا کیا گیا تھا جو احتجاجی تحریک کا حصہ ہیں اور انہیں مذاکرات میں کیے گئے فیصلے کی بنیاد پر رہا کیا گیا۔