ایران جتنی چاہے یورینیم افزودہ کرے گا، حسن روحانی
تہران: ایران کے صدر حسن روحانی نے خبردار کیا ہے کہ تہران یورنیم کو افزودگی اس حد تک بڑھا دے گا جتنی ’مقدار ہم چاہیں‘ گے۔
ان کے اس بیان سے یورپی اقوام پر مزید دباؤ بڑھ گیا کہ امریکی پابندیوں کے تناظر میں جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے راہیں تلاش کرے۔
خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی تھی چنانچہ اب لگ رہا ہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے امریکی پابندی کے باجود عالمی منڈی میں تیل فروخت کرنے کے طریقہ کار کی پیش کش نہیں کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: وائٹ ہاؤس ’ذہنی معذور‘ ہے، نئی پابندیاں مسترد کرتےہیں، ایرانی صدر
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ تمام معاملہ اس وقت پیش آیا جب امریکا نے طیارہ بردار 2-52 بمبار اور ایف-22 لڑاکا طیارے خطے میں روانہ کیے جبکہ ایران نے حال ہی میں امریکی فوج کے نگرانی ڈرون کو بھی مار گرایا تھا۔
اس سلسلے میں ایک ایرانی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ’ٹرمپ حکومت ایرانی سیاست کو ایرانی عوام اور خطے پر مرکوز کررہی ہے‘۔
اس سے قبل ایرانی صدر اور کابینہ نے اراکین نے جوہری معاہدے کے یورپی دستخط کنندگان کو ایرانی تیل پر عائد پابندیوں کو نرم کرنے کے لیے کافی کوششیں نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکا ایران کشیدگی، قطر میں امریکی اسٹیلتھ جنگی طیارے تعینات
جوہری معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی کے لیے 3.67 فیصد پر رضامندی کا اظہار کیا تھا جو جوہری توانائی پلانٹ کے لیے کافی ہے لیکن ہتھیاروں کے لیے درکار 90 فیصد سے بہت کم ہے۔
معاہدے میں افزودہ شدہ یورینیم کے ذخیرے کی حد کو بھی 300 کلو گرام تک محدود کردیا تھا جس کے بدلے میں ایران سے معاشی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔
تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی معاہدے سے دستبرداری کے بعد ان پابندیوں کو مزید سخت کر کے نافذ کردیا گیا تھا، پیر کے روز ایران اور اقوامِ متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے نے تصدیق کی تھی کہ تہران نے ذخیرے کے حد سے تجاوز کیا۔
یہ بھی پڑھیں: تہران کا یورینیم کا ذخیرہ 2015 کی طے شدہ حد سے تجاوز کرگیا،ایرانی میڈیا
اس سے قبل حسن روحانی نے 2 ماہ پہلے ایران یورینیم کی افزودگی میں اضافے کے لیے اتوار کے دن کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ 7 جولائی کے بعد یورینیم افزودگی کی شرح 3.67 فیصد نہیں رہے گی اور ہم اس کو اس حد تک بڑھائیں گے جتنا ہم چاہیں گے یا جتنی ضرورت ہمیں محسوس ہوگی۔
تاہم ایرانی صدر کے حالیہ بیان سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وہ اب بھی آخری لمحات میں سفارت کاری کے خواہاں ہیں۔