نقطہ نظر

ایک عام پاکستانی کی زندگی سے ڈالر کا کتنا تعلق ہے؟

عام آدمی پر ڈالر کے اثرات کی بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی پاکستانی کے استعمال ہونے والی اجناس بھی درآمدی ہوتی ہیں

گزشتہ روز سوشل میڈیا کی ایک ویب سائٹ پر وینا ملک، آفتاب اقبال، صحافی چوہدری غلام حسین اور جنید سلیم کے ایک ہی متن والے ٹوئٹس کے اسکرین شاٹس دیکھنے کا اتفاق ہوا، تینوں ٹوئٹس کا متن یہ تھا کہ

’پاکستان کی 90 فیصد آبادی کا ڈالر سے کوئی تعلق نہیں ہے اور باقی جن 10فیصد کا ڈالر سے تعلق ہے ان کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

میں نے ان ٹوئٹس کی تصدیق کے لیے جب ان افراد کے ٹوئٹر ہینڈلز کو کنھگالا تو پتہ چلا کہ یہ کوئی فوٹو شاپ کا کمال نہیں بلکہ یہ خالصتاً انہی افراد کے ٹوئٹس تھے۔ تاہم آفتاب اقبال کے نام اور تصویر کے ساتھ ٹوئٹر پر 3 اکاؤنٹس دستیاب ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت جب اقتدار میں آئی تھی اس وقت ایک ڈالر کی قیمت 122 روپے تھی جو کہ اب 162 سے 164 روپے تک پہنچ چکی ہے۔

روپے کی قدر میں کمی کے حوالے سے ماضی میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اس وقت کی حکومت پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔ وہ بلند و بانگ آواز میں کہا کرتے تھے کہ سالانہ 10 ارب ڈالر کی رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر چلی جاتی ہے اور روپے کی قدر میں کمی سے ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔

اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک عام پاکستانی کا روپے کی قدر میں اضافے سے آخر تعلق کیا ہے۔

پاکستان کی سیاسی اور سفارتی تاریخ میں نہ صرف امریکا کی اہمیت رہی ہے بلکہ معاشی تاریخ میں امریکا اور امریکی کرنسی ڈالر کا عمل دخل خاصا اہم رہا ہے۔ دنیا کے موجودہ تجارتی اور معاشی نظام میں ڈالر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ دنیا میں تجارت کے لیے صرف ڈالر کو ہی کرنسی تصور کیا جاتا ہے۔

اس نظام کی داغ بیل 70ء کی دہائی میں اس وقت پڑی جب امریکا نے ڈالر کے عوض سونا دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے تیل کی تجارت کے لیے جو منڈی قائم کی اس کے تمام تر معاہدوں میں لین دین کی کرنسی امریکی ڈالر میں کرنے کا فیصلہ کیا، یہیں سے پیٹرو ڈالر کی اصطلاح نے جنم لیا۔ اسی پیٹرو ڈالر نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس وقت دنیا میں بین القطبی نظام موجود تھا، یعنی ایک امریکا کے زیرِ انتظام سرمایہ دارانہ نظام اور دوسرا روس کی زیرِ قیادت اشتراکی نظام۔ روسی اشتراکی نظام کو مستحکم تجارتی نظام میں تبدیل نہ کرسکے اور خود روس میں اشتراکی نظام ختم ہوگیا۔

ملک کی معاشی تاریخ میں امریکا اور امریکی کرنسی ڈالر کا عمل دخل خاصا اہم رہا ہے—کارٹون: فیکا

پاکستان بھی 1982ء سے قبل امریکی نظام کا حصہ نہیں تھا۔ 1972ء کو ایک امریکی ڈالر پاکستان کے 4 روپے کے مساوی تھا جبکہ ایک پاکستانی روپے کی قیمت 21 امریکی سینٹس تھی، پاکستان میں یہ نظام 1982ء تک قائم رہا۔ اس حوالے سے اہم ترین فیصلہ غلام اسحاق خان نے کیا اور جنوری 1982ء میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو مستحکم رکھنے کے بجائے فری فلوٹ کی جانب گامزن کردیا۔ اس وقت پاکستان افغان جنگ میں بُری طرح اُلجھا ہوا تھا اور بڑی تعداد میں ڈالر پاکستانی معیشت میں آرہے تھے، جس کی وجہ سے روپے کی شرح مبادلہ کو فلوٹنگ کرنے کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا جاسکا۔

اس فیصلے کے بعد سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت پر ڈالر کی چھاپ گہری سے گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کے شرح مبادلہ میں تبدیلی سے ملک کے غریب، پسماندہ ترین یا دوردراز علاقوں میں رہائش پذیر عام پاکستانی بھی بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔

پاکستان میں مکمل جمہوری نظام بحال ہونے پر جب پریسلر ترمیم نے ملک کو امریکی امداد سے محروم کردیا تو ڈالروں کی کمی پورا کرنے کے لیے 1992ء میں نواز شریف نے معاشی اصلاحات کا ایجنڈا دیا جس میں ڈالر کی اندرون ملک آمد پر عائد تمام پابندیاں ختم کردی گئیں۔ ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے 1994ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت نے ایک انرجی پالیسی دی جس میں سرمایہ کاروں کے لیے بجلی کے نرخ پاکستانی روپے کے بجائے امریکی سکوں (cents) میں طے کیے گئے، اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور ہر چیز کی اصل مالیت جانچنے کے لیے روپے کے بجائے ڈالر کی نظر سے دیکھنا شروع کردیا گیا اور یوں ملک میں ’ڈالررائزیشن‘ کا عمل شروع ہوا۔

سینیٹر الیری پریسلر—اے پی

پاکستان کی موجودہ معاشی ٹیم سے قبل شوکت عزیز اکنامک ہٹ مین کے طور پر پاکستان آئے تھے۔ شوکت عزیز کے دور میں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ تھا اور پاکستان کو بڑے پیمانے پر مفت ڈالر مل رہے تھے جس کا اعتراف سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ شوکت عزیز نے اس دور میں جو سب سے اہم فیصلے کیے ان سے پاکستان کی معیشت عالمی مارکیٹ کے اُتار چڑھاؤ پر منتقل ہوگئی اور ڈالر کی پاکستانی معیشت میں اہمیت مزید بڑھ گئی۔

شوکت عزیز کے دور میں پاکستان میں موجود کموڈٹیز کو عالمی مارکیٹ سے منسلک کردیا گیا تھا، جس میں اجناس، معدنیات اور دیگر اشیاء شامل تھیں۔ اجناس میں گندم اور چاول کی قیمت کو بھی عالمی منڈی سے منسلک کردیا گیا، اس کے علاوہ پاکستان میں پائے جانے والے معدنیات اور توانائی کے وسائل کو بھی ڈالر سے منسلک کردیا گیا۔

سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور جنرل (ر)پرویز مشرف—تصویر رائٹرز

پاکستان میں پہلے ہی بجلی کی پیداوار ڈالر سے منسلک ہوچکی تھی، پھر سپلائی چین کو بھی ڈالر سے منسلک کردیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان سے نکلنے والی گیس اور خام تیل کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں سے ایندھن کی خریداری کے لیے مقرر کردہ ویل ہیڈ پرائس well Head Price کو بھی پاکستانی روپے سے ڈالر پر منتقل کردیا گیا۔

شوکت عزیز کے دورِ حکومت میں ملک میں گیس کی قلت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود مقامی سطح پر دستیاب گیس کو بھی ڈالر سے منسلک کرنے کے ساتھ ساتھ گیس کی قیمت کے تعین کو بھی خام تیل کی عالمی قیمت سے جوڑ دیا گیا۔ ان فیصلوں کے باعث پاکستان بتدریج درآمدی معیشت میں تبدیل ہوتا چلا گیا جہاں پر ہر چیز کی قیمت عالمی کموڈٹی مارکیٹ سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ ڈالر کے زیرِ اثر آگئی تھی۔ اس کے بعد سے پاکستان کو کوئی بھی لائسنس جاری کرنا ہو چاہے وہ تیل و گیس کی تلاش کا ہو یا ٹیلی کام کا ہر ایک کے لیے قیمت کا تعین ڈالر میں کیا جاتا ہے اور ڈالر ہی میں رقوم وصول کی جاتی ہیں۔

عام آدمی پر ڈالر کے اثرات کی بات محض یہاں آکر ختم نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی غریب ترین پاکستانی کے باورچی خانے میں استعمال ہونے والی اجناس بھی درآمدی ہوتی ہیں۔

پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود 5 ارب ڈالر سے زائد کی چائے، مصالحہ جات، خوردنی تیل، چینی اور دالیں وغیرہ جیسی مختلف غذائی اجناس درآمد کرتا ہے۔ اب آپ بس، ریل یا کسی اور سواری پر سفر کریں یا پھر گھر میں بیٹھے سوئی گیس پر کھانا پکائیں یہ سمجھ لیں کہ ایندھن کی جگہ ڈالر ہی جل رہے ہیں۔

پاکستانی معیشت کے حوالے حکومتِ پاکستان 'اکنامک سروے آف پاکستان' یا اقتصادی جائزہ رپورٹ جاری کرتی ہے۔ ڈالر کی اہمیت کا اندازہ اس رپورٹ کا جائزہ لینے پر ہوجاتا ہے جس میں لفظ ڈالر 38 مرتبہ جبکہ ڈالر کا نشان ($) 300 سے زائد بار استعمال کیا گیا ہے۔

بجٹ 20-2019ء سے ایک دن قبل جاری ہونے والے اس سروے میں بھی ملک میں ہونے والی مہنگائی کی ذمہ داری ڈالر کی مہنگی قیمت پر ڈالی گئی ہے۔ اکنامک سروے میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2018ء میں روپے کی قدر میں 4.4 فیصد کی کمی ہوئی تھی جس کے اثرات اگست میں نظر آئے اور ہول سیل پرائس انڈیکس میں 11 فیصد کے ساتھ دہرے ہندسے میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جولائی سے اپریل کے دوران روپے کی قدر میں 16.3 فیصد کی کمی ہوئی جس کے باعث ہول سیل پرائس انڈیکس میں 13.8 فیصد تک اضافہ ہوگیا۔

اقتصادی جائزہ رپورٹ میں بھی ملک میں ہونے والی مہنگائی کی ذمہ داری ڈالر کی مہنگی قیمت پر ڈالی گئی ہے—پی ڈی آئی

روپے کی قدر میں کمی سے عام آدمی بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان میں معاشی ترقی کا اندازہ ملک کی فی کس آمدنی سے لگایا جاتا ہے۔ پاکستان کی فی کس آمدنی کو روپے کے بجائے ڈالر میں انڈیکس کیا جاتا ہے۔ سال 18-2017ء میں پاکستان کی فی کس آمدنی 1652 ڈالر تھی جو کہ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں کم ہوکر 1479 ڈالر ہوگئی ہے۔ اس طرح فی کس آمدنی میں 155 ڈالر کی کمی دیکھی گئی ہے۔

اب جبکہ ایک محنت کش کے سفر، ایندھن اور باورچی خانے تک کے اخراجات ڈالر پر منحصر ہیں، ایسے میں ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ روپے کی گراوٹ سے کم سے کم اجرت لینے والوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے کچھ اعداد و شمار سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایس ڈی پی آئی کے سمینار سے خطاب میں پیش کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 19-2018ء میں ہمیں محسوس ہوا کہ معیشت میں اوور ہیٹنگ کے اثرات نظر آرہے ہیں، اسی لیے روپے کی قدر میں معمولی کمی کی اور روپے کی شرح مبادلہ میں بھی تبدیلی کی۔

وفاقی حکومت نے کم سے کم اجرت 17000 روپے مقرر کی تھی جسے تحریک انصاف نے بڑھا کر 17500 روپے مقرر کردی ہے۔ بظاہر تو یہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن اگر ڈالر کی صورت میں دیکھا جائے تو پہلے ایک محنت کش کو اگر ماہانہ 142 ڈالر ملتے تھے لیکن روپے کی گراوٹ سے یہ رقم 104 ڈالر بن جاتی ہے۔ یعنی صرف روپے کی قدر میں کمی سے ایک محنت کش کی ماہانہ آمدنی میں 38 ڈالر کی کمی ہوگئی ہے۔

پاکستان میں رہنے کے باوجود آپ کو تمام اجناس اور اشیاء عالمی منڈی کی قیمتوں کے حساب سے دستیاب ہوتی ہیں اور ایک عام پاکستانی کی زندگی پر نہ صرف عالمی منڈی میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ بلکہ ڈالر کی قیمتوں کی بلندی و پستی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


راجہ کامران شعبہ صحافت سے 2000ء سے وابستہ ہیں۔ اس وقت نیو ٹی وی میں بطور سینئر رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔