Parenting

انسان کی بہتر پرورش میں والدین کا کردار

انسان 3 سال تک والدین پرانحصار کرتا ہے، والدین کی عدم موجودگی یا غفلت انسان کے دماغ پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

جدید سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پیدائش کے بعد انسان 2 سے 3 سال تک اپنے والدین پر انحصار کرتا ہے اور اس دوران والدین خصوصا ماں کی عدم موجودگی یا کوئی غفلت انسان کے دماغ پر گہرے منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے، کیوں کہ ایک سے 2 سال کے دوران بچے کے اندرونی دماغ کی نشوونما کے علاوہ اس میں نیوران تشکیل پاتے ہیں اور اسی دورران وہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور رویوں کو سمجھنے اور ان کا مؤثر و مثبت جواب دینے یا ان پر رد عمل کا اظہار کرنا سیکھتے ہیں۔

اس تمام تر نشونما کا انحصار ان کے اپنے والدین، آیا، میڈیا یا خاندان کا کوئی اور فرد جو ان کی دیکھ بھال پر معمور ہو اس کے ساتھ بننے والے ان کے تعلق پر ہوتا ہے۔ ابتداء میں یہ تعلق یک طرفہ ہوتا ہے اور بچہ مکمل طور پر ماں یا کیئر کرنے والے پر انحصار کرتا ہے مگر پھر آہستہ آہستہ 6 سے 8 ماہ کے بعد وہ دوسرے فریق کے لیے اپنی محبت کا اظہار کرنا سیکھنے لگتا ہے۔

موجودہ دور میں تیز تر سائنسی پیش رفت کی بدولت چونکہ اب پرورش کے معیار بھی بدلتے جارہے ہیں اور مائیں بچوں کی نشوونما سے زیادہ خود کو وقت دینا پسند کرتی ہیں اس لیے بچوں کی پرورش اور ابتدائی نشو ونما پر تحقیق میں کافی پیش رفت ہوئی ہے جو دراصل نفسیات، نیورولو جی اور جینیٹکس کا مجموعہ ہے اور سائنس کی اس نئی شاخ کو ایپی جینیٹکس کا نام دیا گیا ہے۔

اس کے مطابق اگر 2 سال کے عرصے میں بچے کو ماں باپ کی جانب سے صحیح توجہ اور محبت نہ ملے تو ان کی دماغی نشوونما پر ایسے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو تعلیم، کیریئر کے علاوہ مستقبل میں دوستی، محبت یا شادی کے بعد شریک حیات سے صحت مند تعلق بنانے میں حائل ہوتے ہیں اور اگر تھراپی کے ذریعے انہیں حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو یہ ان کے لیے ساری عمر کا روگ بن سکتے ہیں۔

بلکل اسی طرح اگر بچوں کو حد سے زیادہ لاڈ، پیار یا توجہ دی جائے تو وہ بھی ان کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں آج بھی ایسے گھروں کی کمی نہیں ہے جہاں بیٹے کی پیدائش کے لیے باقاعدہ مرادیں مانگی جاتی ہیں اور پھر اس بیٹے کو انگلی کا چھالہ بنا کر پالا جاتا ہے، اسی طرح کچھ گھروں میں جہاں بیٹوں کی تعداد زیادہ ہو وہاں لاڈلی بیٹی سب کی خصوصی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 3 سال تک کے بچے والدین کی توجہ اور پیار سے انکار کیوں کرتے ہیں؟

اس طرح گھر کے دوسرے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں جو ان کی نفسیات اور مستقبل میں خود اعتمادی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور وہ اس احساس سے نکلنے کی الٹی سیدھی تکنیک سیکھ کر زندگی کو کچھ اور مشکل اور پیچیدہ بنا لیتے ہیں جبکہ دوسری جانب گھر بھر کی توجہ کا مرکز اکلوتا سپوت (کچھ کیسز میں بیٹی ) بہت زیادہ پیار اور توجہ ملنے کے باعث بگڑ جاتے ہیں اور ان کے رویوں میں جوان ہو جانے پر بھی پختگی نہیں آتی۔

والدین سے بہت زیادہ تعلق کی وجہ سے ان کی شخصیت میں جھول رہ جاتا ہے اور ایسے بچے عمر بھر خودکو اور اپنی شناخت کو تلاشتے رہ جاتے ہیں۔

انسانی جسم میں دماغ کو اعضاء کا بادشاہ کہا جاتا ہے، آج سائنس اور مصنوعی ذہانت میں تیز تر پیش رفت کے باوجود سائنس دان انسانی دماغ کے میکینزم کو پوری طرح نہیں سمجھ سکے جو 100 ارب سے زیادہ دماغی خلیات پر مشتمل ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک تقریبا 7000 تک چھوٹے دماغی خلیات سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔

بچوں کو جدید آلات دینے سے ذمہ داریاں مکمل نہیں ہوتیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

ان نیوران کی نشونما پیدائش کے بعد پہلے سال میں ہوتی ہے جو عمر کے ساتھ بتدریج جاری رہتی ہے اور 3 برس کی عمر میں بچے کا دماغ 90 فیصد تک مکمل فیچر اختیار کر چکا ہوتا ہے، اس دوران بچے کا اپنی ماں یا کیئر گیور کے ساتھ جو تعلق بنتا ہے وہ دماغی نشوونما میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔

اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ دماغ ایک الیکٹرانک مشین ہے اور یہ تعلق ایک تار یا پلگ ہے جو اسے ساکٹ سے جوڑتا ہے، اگر تار میں کوئی خرا بی ہو، یا اعلی ٰکوالٹی کا نہ ہو یا پھر مشین کے متعلقہ وولٹیج سے کم درجے کا ہو تو مشین کو چلنے میں مشکلات ضرور پیش آئیں گی، اسی طرح اگر بچے کا ماں کے ساتھ کنیکشن درست نہ ہو تو اس کے دماغ کے اربوں سیل متحرک ہی نہیں ہو پائیں گے۔

اسی طرح ابتدائی ادوار میں بچے کو اگر بہت زیادہ روکا ٹوکا جائے یا بلکل ہی کھلی چھٹی دے دی جائے تو دماغ کے کچھ حصے اس پیغام کو منفی لے لیتے ہیں جو مستقبل میں اس کی اپنے آپ سے محبت اور خود اعتمادی پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں، بچے کا دماغ والدین یا فیملی کے رویوں کو کیچ کر کے اپنی ایک مصنوعی شناخت بنا لیتا ہے کہ وہ بہت برا ہے یا سب سے بر تر اور یہ رویے اگر بار بار دہرائے جائیں تو آہستہ آہستہ ایسی سوچیں ہی اس کی اصل شناخت بن جاتی ہیں اور بچے کی اصل شخصیت کہیں گم ہوجاتی ہے۔

مزید پڑھیں: بچوں کی پرورش اور والدین کی ذمہ داریاں

ماہرین کے مطابق ایسے بچے جنہیں ابتدائی سالوں میں مناسب توجہ اور محبت نہ ملے یا کسی وجہ سے نظر انداز کیے جائیں ان میں اپنے جذبات کا اظہار اور صحت مندانہ بحث و مباحثہ کی خصوصیت نہیں ہوتی، وہ مستقبل میں کسی بھی نا خوشگوار واقعے کو بات چیت سے حل کرنے کے بجائے خود کو اپنے خول میں بند کر لیتے ہیں۔

یہ بات اب تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ بچپن میں جن بچوں کو ایک محفوظ اور صحت مند ماحول نہیں ملتا وہ ساری عمر اپنے تعلقات کے حوالے سے غیر یقینیت، مسائل اور الجھنوں کا شکار رہتے ہیں، خود پر غیر اعتمادی انہیں شریک حیات پر اعتبار کرنے سے روکتی ہے اور وہ اس کے ساتھ ایک مؤثر تعلق بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔

پیدائش کے بعد ابتدائی 2 سال میں والدین خصوصا ماں کی جانب سے بچوں کو نظر انداز کرنے کے باعث ان کے دماغ کے مندرجہ ذیل حصے متاثر ہوتے ہیں۔

1۔ ہیمی سفیئر

انسانی دماغ میں بایاں ہیمی سفیئر جسم کے دائیں حصے کے افعال کو کنٹرول کرتا ہے جب کے اس کا بنیادی کام دماغ کے وہ افعال سر انجام دینا ہے جن کا تعلق لوجک منطق یا سوچ بچار سے ہے۔

ماں کے ساتھ تعلقات صحیح نہ ہونے کے باعث دماغ کے بائیں ہیمی سفیئر میں نشوونما صحیح نہیں ہو پاتی جس کی وجہ سے بچے اسکول میں حساب اور سائنس مضامین میں اچھی کارکردگی نہیں دکھاتے، اس کے علاوہ مستقبل میں ان میں ڈپریشن کے مرض کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔

2۔ لمبک سسٹم

لمبک سسٹم دماغ کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق بنیادی طور پر انسانی افعال جیسے جذبات اور یادداشت سے ہوتا ہے، اس حصے میں محسوسات بڑھ جانے کے باعث مستقبل میں بچہ انزائٹی کا شکار ہوسکتا ہے، جو کہ ایسی دماغی بیماری ہے جس میں مریض ہر وقت مضطرب، پریشان اور خوفزدہ رہتا ہے۔

3۔ہپو کیمپس

ہپو کیمپس انسانی دماغ میں ایک چھوٹا سا عضو ہے جو لمبک سسٹم کا ایک اہم حصہ تشکیل دیتا ہے، جس کا تعلق یادداشت سے ہے، اس کے ذریعے وہ اپنے ماحول اور ارد گرد کی معلومات جمع کر کے انہیں یاد رکھتا ہے، جیسے مخصوص جگہ، راستے اور اپنے شہر وغیرہ کی معلومات۔

یہ بھی پڑھیں: والدین کی وہ غلطی جو بچوں کی زندگیاں خراب کررہی ہے

دماغ کے اس حصے کے متاثر ہونے کی صورت میں انسان کی یادداشت صحیح کام نہیں کرتی یا بعض اوقات پرانی نا خوشگوار یادیں بھولنے میں دشواری ہوتی ہے اور بہت سے واقعات ساری عمر اس کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔

ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ محبت بھرا ایک تعلق اور ان کی بھرپور توجہ بچوں کے لیے کتنی ضروری ہوتی ہے، آج کل کے مشینی دور میں جینے والے والدین کے لیے یہ یقینا ایک لمحہ فکریہ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایک پر آسائش گھر میں ایک علیحدہ کمرہ اور دیگر لوازمات فراہم کر کے وہ بچوں کی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔


صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے saadeqakhan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔