دنیا

دبئی کے حکمران کی اہلیہ فرار کیوں ہوئیں، حقیقت سامنے آگئی

کچھ دن قبل خبر سامنے آئی تھی کہ دبئی کے حکمران کی اہلیہ شہزادی حیا بچوں سمیت جرمنی منتقل ہوگئیں۔

کچھ دن قبل ہی یہ خبر سامنے آئی تھی کہ دنیا کے امیر ترین اور بااثر ترین حکمرانوں میں سے ایک متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے نائب صدر اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی اہلیہ شہزادی حیا زندگی کو لاحق خطرات کی وجہ سے اپنے بچوں سمیت جرمنی منتقل ہوگئیں۔

اگرچہ تاحال دبئی یا جرمنی کے حکام نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ دبئی کے حکمران کی اہلیہ اپنے بچوں سمیت جرمنی منتقل ہوئی ہیں، تاہم اطلاعات ہیں کہ وہ گزشتہ ایک ماہ سے جرمنی میں ہیں۔

رپورٹس تھیں کہ ابتدائی طور پر شہزادی حیا برطانیہ منتقل ہونا چاہتی تھیں، تاہم انہیں برطانوی حکومت پر شک تھا اس لیے وہ جرمنی منتقل ہوئیں۔

یورپی میڈیا رپورٹس کے مطابق شہزادی حیا نے جرمنی کو سیاسی پناہ کی درخواست بھی دی تھی۔

رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ شہزادی حیا اپنی 11 سالہ بیٹی اور 7 سالہ بیٹے کے ہمراہ جرمنی منتقل ہوئی ہیں، ساتھ ہی شہزادی کم سے کم 3 کروڑ پاؤنڈ کی خطیر رقم کے ساتھ دبئی سے منتقل ہوئی ہیں۔

شہزادی حیا برطانیہ میں ہونے والے کیپ فیسٹیول میں ہر سال شرکت کرتی ہیں—فوٹو: سن ایم وی

رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہزادی حیا شوہر کی جانب سے دھوکے باز اور بے وفا جیسے خطاب دیے جانے اور خود کو درپیش خطرات کی وجہ سے جرمنی منتقل ہوئیں۔

تاہم اب خبر سامنے آئی ہے کہ شہزادی حیا کے فرار ہونے کی اصل وجہ کچھ اور تھی۔

برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق دراصل شہزادی حیا برطانوی کورٹ میں چلنے والے ایک مقدمے میں برطانوی حکومت کی مداخلت کے بعد دبئی سے منتقل ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق لندن کی ایک مقامی عدالت میں شہزادی حیا اور ان کے شوہر کا ایک مقدمہ زیر سماعت تھا۔

شہزادی حیا کے برطانوی شاہی خاندان سے گہرے تعلقات ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

اخبار کے مطابق شہزادی حیا اور شیخ محمد بن راشد المکتوم کے تنازعات پر زیر سماعت مقدمے میں برطانوی حکومت نے مداخلت کی اور حکومت لابی کرنے میں کامیاب گئیں، جس کے بعد شہزادی نے دبئی سے منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔

رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ شہزادی حیا اور ان کے شوہر کے درمیان کس طرح کے تنازع کا مقدمہ لندن کی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دبئی کے حکمران کی اہلیہ خطیر رقم لے کر بچوں سمیت فرار، رپورٹ

اخبار کے مطابق یہ اطلاعات بھی ہیں کہ شہزادی حیا برطانیہ میں موجود ہیں، تاہم اس کی تصدیق نہیں کی جاسکی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہزادی حیا کے برطانوی شاہی خاندان سے قریبی تعلقات ہیں اور ان کا ایک 8 کروڑ 50 لاکھ یورو مالیت کا عالیشان گھر بھی شاہی محل کے قریب ہی ہے۔

شہزادی حیا اپنے 7 سالہ بیٹے اور 11 سالہ بیٹی کے ساتھ جرمنی منتقل ہوئی ہیں، رپورٹ—فوٹو: پرنسز حیا انسٹاگرام

اخبار کے مطابق شہزادی حیا برطانیہ میں ہر سال ہونے والے کیپ فیسٹیول میں شرکت کرتی ہیں، تاہم اس بار انہوں نے شرکت نہیں کی۔

رپورٹ میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یو اے ای کے سفارت خانے نے شہزادی حیا کے معاملے پر بات کرنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ سفارت خانہ کسی نجی شخص کی ذاتی زندگی پر بات نہیں کر سکتا۔

لندن میں موجود یو اے ای کے سفارتخانے کے حکام نے شہزادی حیا کی برطانیہ میں موجود ہونے یا نہ ہونے پر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے کسی بھی معاملے پر کوئی بیان نہیں دے سکتے جن سے ان کے اور برطانوی یا جرمن سفارت کاروں کے درمیان اختلافات پیدا ہوں۔

شہزادی حیا کی دعوت پر برطانوی شاہی خاندان دبئی کا دورہ بھی کر چکا ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک

خیال رہے کہ شہزادی حیا اردن کے سابق بادشاہ حسین بن طلال کی بیٹی اور حالیہ بادشاہ عبداللہ کی بہن ہیں اور وہ دبئی کے حکمران کی چھٹی اہلیہ ہیں۔

شہزادی حیا 2 بچوں کی ماں ہیں، وہ ماضی میں اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر برائے خوراک اور انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔

شہزادی حیا نے فلاسافی، سیاست اور تاریخ کی تعلیم برطانیہ میں حاصل کی اور انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ وہیں گزارا۔

شہزادی حیا کو رواں برس فرروی سے عوامی تقریبات میں نہیں دیکھا گیا—فوٹو: سپلائڈ

شہزادی حیا نے بطور دبئی کے حکمران کی اہلیہ کے کئی سماجی منصوبوں کی شروعات کی اور وہ ہر وقت ان کے ساتھ عوامی تقریبات میں دیکھی جاتی رہی ہیں۔

شہزادی حیا اپنے نفیس لباس، خوبصورتی، گفتگو اور انداز کی وجہ سے ہمیشہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔

شہزادی حیا اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کے ساتھ فلاحی منصوبوں پر کام کے دوران وقتا بوقتا سماجی سرگرمیوں کے لیے دیگر ممالک کا دورہ بھی کرتی رہیں۔

شہزدی حیا کو بچپن سے گھڑ دوڑ سواری کا شوق تھا، وہ اس کھیل میں حصہ بھی لیتی رہیں۔

شہزادی حیا کا تعلق اردن کے شاہی خاندان سے ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک