دنیا

یورینیم افزودگی کا تنازع: ایران آگ سے کھیل رہا ہے، امریکا

اسرائیل نے یورپی ممالک سے تہران پر اقتصادی پابندی لگانے کا مطالبہ کردیا۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورینیم کی افزودگی میں حد سے تجاویز کرنے پر ایران کو خبردار کیا ہے کہ ایران آگ سے کھیل رہا ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیل نے یورپی ممالک سے تہران پر اقتصادی پابندی لگانے کا مطالبہ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: تہران کا یورینیم کا ذخیرہ 2015 کی طے شدہ حد سے تجاوز کرگیا،ایرانی میڈیا

اس ضمن میں روس نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ امریکی دباؤ کے پیش نظر جوہری معاہدہ متاثرہوا۔

برطانیہ نے تہران کو جوہری معاہدے سے ’مزید روگرانی برتنے سے گریز‘ کرنے کی ہدایت کی۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ نے ایران کو معاہدے کی پاسداری پر قائم رہنے پر زور دیا۔

واضح رہے کہ یکم جولائی کو ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی 'فارس' کی رپورٹ میں کہا تھا کہ تہران نے یورینیم کی افزودگی کی 2015 کے جوہری معاہدے میں طے کی گئی 300 کلوگرام کی حد پار کرلی ہے۔

معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی کی شرح 3.67 فیصد سے زائد نہ رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: ویانا اجلاس جوہری معاہدہ بچانے کا آخری موقع ہے، ایران

اس حوالے سے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے واضح کیا تھا کہ یورینیم کی افزودگی سے اب پسپائی اختیار نہیں کی جا سکتی اور ہم غیر ملکی دباؤ کے آگے سر نہیں جھکاسکتے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کہا کہ ’وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہ کھیل رہے ہیں اور میرا خیال ہے وہ آگ سے کھیل رہے ہیں‘۔

بعدازاں وائٹ ہاؤس نے مراسلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’امریکا اور اس کے اتحادی ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے‘۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ تہران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالا جائےگا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کا 27 جون سے یورینیم افزودگی کی طے شدہ حد سے تجاوز کرنے کا اعلان

وائٹ ہاؤس کی ترجمان اسٹیفنی گرسہم نے کہا کہ ’وہ ایک غلطی تھی جس کے تحت ایران کو محدود پیمانے پر یورینیم کی افزودگی کی اجازت دی گئی‘۔

انہوں نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ ’جوہری معاہدے کے باوجود ایران نے شرائط کی خلاف ورزی کی‘۔

مذکورہ بیان پر ایرانی وزیر خارجہ نے ٹوئٹ کیا کہ ’واقعی‘۔

خیال رہے کہ جولائی 2015 میں ایران اور 6 عالمی قوتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد 2016 سے شروع ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’تمام فریق جوہری معاہدے پرعمل کریںِ، ایران تنہا جڑا نہیں رہ سکتا‘

اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو روکنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا اور توانائی کے حصول کے لیے جوہری مواد کے استعمال کو بین الاقوامی جانچ کے حوالے کردیا تھا۔

گزشتہ برس مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے سابق صدر کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔