افسانہ: کنویں کے اندر کا آدمی

’کتنے زور سے چیخوں تو آواز کنویں سے باہر سنائی دے گی؟‘
سال پہلے، ہاں غالباً یہ سال پہلے کی بات ہے۔
پڑھنے والے اس میں دو، چار مہینے کم یا زیادہ بھی کرسکتے ہیں کہ کنویں میں کیلنڈر دستیاب نہیں حتٰی کہ یہاں گھڑی بھی موجود نہیں اور سچ پوچھیے تو کنویں میں کیلنڈر اور گھڑی کا کیا کام؟
یہ ایک سال صرف میرا اندازہ ہے عین ممکن ہے یہ کئی سال پر محیط کہانی ہو۔ کنویں میں رات اور دن کا مطلب ایک ہی ہے۔
’کتنے زور سے چیخوں تو آواز کنویں سے باہر سنائی دے گی؟‘
میرا گلا اب چیخ چیخ کر اس قدر زخمی ہوچکا ہے کہ اس سے ہر وقت خر، خر کی آواز آتی رہتی ہے جو صرف مجھے سنائی دیتی ہے حتٰی کہ سوتے ہوئے بھی ہر خواب کے پسِ منظر میں خر، خر کی آواز جاری رہتی ہے۔
مدت سے میں نے ایسا کوئی خواب نہیں دیکھا جس میں یہ خر، خر سنائی نہ دی ہو۔ شاید بچپن میں مجھے اس آواز کے بغیر خواب دکھائی دیتے ہوں لیکن اب مجھے باہر کی باتیں زیادہ تفصیل سے یاد نہیں۔ وہاں کی ایک ہلکی سی یاد ان قوانین کے بارے میں ہے جو اس وقت نافذ تھے۔ لوگ اضافی آنکھیں، کان اور زبان لیے پھرتے تھے کیونکہ وہ ان سے کوئی کام نہیں لیتے تھے۔ نافذ شدہ قانون کے تحت بولنا، دیکھنا اور سننا ہوتا تھا۔ فاختائیں امن کے گیت گاتی تھیں تو لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور کہتے تھے،
’ہم نے یہ سب نہیں سننا کہ ہمارے کان فقط گولیوں اور بم دھماکوں کے شور سننے کے لیے بنے ہیں اور ہم نے مسخ شدہ لاشیں دیکھنی ہیں‘۔
یہ دور ماؤں کا بچے جنم دینے کا دور ہرگز نہیں تھا لیکن کنویں سے باہر دھڑا دھڑ بچے پیدا ہورہے تھے، وہ بچے کہ جن کے کان محبت بھری لوریوں سے ناآشنا تھے۔
’تو اور کتنے زور سے چیخوں؟‘
کنویں میں رہتے ہوئے مجھے اتنا اندازہ ہوچکا ہے کہ باہر لوگوں کے کانوں کے پردے پھٹ چکے ہیں یا ان کی آنکھیں اب دیکھنے کے قابل نہیں رہیں۔
ممکن ہے وہ اب مکمل طور پر بہرے اور اندھے پن کا شکار ہوگئے ہوں یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سننے اور دیکھنے کے قوانین میں مزید سختی آچکی ہو جس کی وجہ سے انہیں میری کوئی بھی چیخ سنائی نہ دیتی ہو اور نہ یہ کنواں دکھائی دیتا ہو۔
جنہیں دکھائی اور سنائی نہ دے وہ بھلا بولیں گے کیوں؟
کنویں کے اندر اور باہر کی دنیا کے درمیان ایک خلا ہے جس میں کوئی آواز، کوئی روشنی سفر نہیں کرپاتی۔
’تو اور کتنے زور سے؟‘
کنویں کے اندر مکمل تاریکی ہے، یہ ایک ترک شُدہ کنواں ہے۔ لوگ اوپر سے یہاں گند پھینکتے ہیں جس پر میرا گزر بسر ہوتا ہے۔ بعض اوقات عجیب و غریب لیس دار اور بدبو سے بھرا گند کوئی نیچے پھینک دیتا ہے جس کے تعفن سے کنویں کی فضا مزید آلودہ ہوجاتی ہے لیکن میں گند پھینکنے والوں تک اپنا احتجاج نہیں پہنچا سکتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جب گند پھینک رہے ہوتے ہیں تو اپنے ناک پر رومال رکھے ہوتے ہیں اور آنکھیں بند ہوتی ہیں اور وہ گند پھینکتے ہوئے شاید ذرا دیر کو بھی نہیں سوچتے کہ کوئی انسان کنویں کے اندر بھی ہوسکتا ہے۔ایک عرصے تک میں کنویں میں سیڑھی ڈھونڈتا رہا ہوں لیکن اب میں تھک چُکا ہوں اور اپنی یہ کوشش ترک کرچکا ہوں، آپ میری بات کا یقین کریں کہ اس کنویں میں کوئی سیڑھی نہیں ہے۔
’تو اور کتنے؟؟؟‘
جب میں کنویں سے باہر تھا تو میں بھی یہاں گند پھینکنے آیا کرتا تھا، میں نے کبھی اس کے اندر جھانک کر نہیں دیکھا تھا عین ممکن ہے اس وقت بھی یہاں کوئی رہتا ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ ہر شخص کے لیے الگ الگ کنویں بنوائے گئے ہوں۔ یہ صرف میرا خیال ہے اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔
خر، خر۔۔۔۔ آخر یہ خر، خر کتنی دیر ہوتی رہے گی؟
مجھے زور سے چیخنے دیجیے کہ شاید میری آواز کسی کو سُنائی دے جائے۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔