پاکستان

فرشتہ قتل کیس: سابق ایس ایچ او سمیت 4 پولیس اہلکار برطرف

برطرف اہلکاروں میں کیس کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) ناصر اور 2 کانسٹیبل بھی شامل ہیں، پولیس ترجمان
|

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشن نے فرشتہ قتل کیس میں معطل ایس ایچ او سمیت 4 پولیس اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کر دیا۔

پولیس ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق برطرف اہلکاروں میں معطل ایس ایچ او کے علاوہ کیس کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) ناصر اور 2 کانسٹیبل بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے دوران معطل ایس ایچ او غلام عباس اور دیگر اہلکار غفلت اور لاپرواہی کے مرتکب قرار پائے گئے جس کے باعث ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ چاروں اہلکاروں کی برطرفی کے احکامات ڈی آئی جی آپریشن نے جاری کیے۔

مزید پڑھیں: فرشتہ قتل کیس: ملزمان کی نشاندہی کیلئے پولیس کی عوام سے مدد کی اپیل

قتل کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن کی رہائشی 10 سالہ فرشتہ 15 مئی کو گھر سے باہر نکلی لیکن واپس گھر نہ پہنچی تھی۔

بچی کی گمشدگی کے بعد اہلِ خانہ نے اپنی مدد آپ کے تحت اس کی تلاش کی اور اندراجِ مقدمہ کے لیے پولیس سے رابطہ کیا لیکن پولیس نے اہلِ خانہ کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے کے بجائے کہا کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔

جس کے بعد رکنِ قومی اسمبلی کی مداخلت اور ان کی جانب سے مذکورہ معاملہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس محمد عامر ذوالفقار خان کے سامنے اٹھانے پر گمشدگی کے 4 روز بعد 19 مئی کو واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا۔

مقدمے کے اگلے ہی روز بچی کی مسخ شدہ لاش تمہ گاؤں کی جھاڑیوں سے برآمد ہوئی جب گاؤں کے کچھ افراد نے لاش دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی، بعد ازاں متاثرہ بچی کے والد غلام نبی نے اس کے کپڑوں کی مدد سے لاش کی شناخت کی۔

پولیس کے مطابق لاش 4 روز پرانی تھی اور امکان ظاہر کیا گیا کہ اسے گینگ ریپ اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاہم اس کی تصدیق اور لاش کی حتمی شناخت کے لیے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے اور پوسٹ مارٹم کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: فرشتہ قتل کیس: وزیر اعظم کے حکم پر پولیس افسران گرفتار

لواحقین کے احتجاج کرنے پر تھانہ شہزاد ٹاؤن کے ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا جبکہ پولیس حکام نے مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کی تردید کی۔

22 مئی کو وزیر اعظم عمران خان نے بچی فرشتہ کے اغوا، مبینہ ریپ اور قتل کے کیس میں ایس ایچ او شہزاد ٹاﺅن اسلام آباد کی گرفتاری میں تاخیر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز اور انسپکٹر جنرل پولیس سے وضاحت طلب کر لی تھی۔

پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے شہزاد ٹاؤن کے سب ڈویژنل پولیس افسر کی معطلی اور سپرنٹنڈنٹ پولیس (دیہی علاقہ جات) کی برطرفی کا حکم بھی دیا تھا۔

جس پر پولیس کے اعلیٰ حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے شہزاد ٹاؤن تھانے کے ایس ایچ او اور کیس کے تفتیشی افسر کو گرفتار کر لیا تھا۔

مزید پڑھیں: 10 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد قتل،اہلخانہ کا شدید احتجاج،2 ملزمان گرفتار

بعد ازاں اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں مبینہ ریپ کے بعد قتل کی جانے والی معصوم فرشتہ کے کیس کی جوڈیشل انکوائری کا آغاز کردیا گیا۔

مذکورہ کیس سے متعلق ضلعی مجسٹریٹ نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے احکامات جاری کیے تھے۔

انکوائری کے دوران فرشتہ کے لواحقین کا کہنا تھا کہ انہوں نے بچی کی گمشدگی کی رپورٹ جمع کروانے کے لیے 3 روز تک متعلقہ تھانے سے رابطہ کیا لیکن تھانے کے ایس ایچ او نے بات کرنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔