بجٹ عوام دوست، مگر نادان دوست

بجٹ آگیا! اب آپ کہیں گے کہ بجٹ ہم ہی پر آکر گرا ہے اور یہ ہمیں یوں بتا رہا ہے جیسے خبر دے رہا ہو۔
نہیں صاحب ایسا نہیں، یوں سمجھیں ہم نے ویسا ہی بین کیا ہے جیسے کوئی میت ہوتے ہی لواحقین کرتے ہیں ’ارے ابّا چلے گئے ے ے ے ے‘۔ یہاں اہل خانہ، اہل محلہ اور خود ابّا مرحوم کو بتانا مقصود نہیں ہوتا کہ وہ وفات پاچکے ہیں، بلکہ غم کا بے ساختہ اظہار ہوتا ہے، سو ہم نے بھی یہی کیا ہے۔ یعنی ہمارے فقرے کو یوں پڑھا جائے ’ہائے بجٹ آگیااااااا‘، ’ارے کیوں آگیااااا۔‘
چلیں اب تو آہی گیا، آنے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔
اس بار کا بجٹ بہت مختلف ہے۔ ہر بجٹ کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں، مگر اس کی خاطر گرفتاریاں کی گئیں۔ ہر بجٹ کے بعد مہنگائی کا ’مولاجٹ‘ آتا ہے، اس مرتبہ ’کپتان‘ اور ان کی ٹیم نے بجٹ سے پہلے ہی گرانی کا ’وارم اپ میچ‘ کرادیا، تاکہ عوام مہنگائی کے عادی ہوجائیں اور ان کی اتنی چیخیں نکل جائیں کہ بجٹ آنے کے بعد نکلنے کے لیے صرف آہ اور کراہ بچے۔
حکومت کے مخالفین کچھ بھی کہیں، لیکن ہمارے نزدیک تو یہ بہت اچھا اور عوام دوست بجٹ ہے۔ یہ الگ بات کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا، اور بعض اوقات تیر کھانے کے بعد مُڑ کر دیکھو تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوجاتی ہے جو زخمی کی ’ہائے‘ کا جواب ہاتھ ہلا اور ہائے (HI) کہہ کر دیتے ہیں، لہٰذا اس بجٹ کو نادان دوست بھی کہا جاسکتا ہے لیکن بہرحال ہے عوام دوست۔
لوگوں کو اعتراض ہے کہ حکومت نے چینی کے نرخ بڑھا دیے ہیں، بھئی جب میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرتے ہیں تو اب کڑوا کڑوا تھوتھو نہ کریں۔ ہمارے خیال میں یہ نرخ اس لیے بڑھائے گئے ہیں کہ ملک میں چینی کی بدترین قلت ہے اس فیصلے کا کسی اور ’ترین‘ سے کوئی تعلق نہیں۔
اس قلت کی 2 وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب موجودہ حکومت آئی تو لوگ مہینوں مٹھائیاں بانٹتے اور ایک دوسرے کا منہ میٹھا کراتے رہے، خوشی منانے کا یہ سلسلہ رُکا تو حکومت کی کارکردگی نے عوام کا منہ یوں کڑوا کیا کہ وہ دن بھر میٹھا کھانے پر مجبور ہوگئے، اگر ایسا نہ کرتے تو جو کڑواہٹ منہ سے باہر آتی اس سے حسب ہدایت ملک کی مثبت تصویر کے برعکس ناک سکیڑ کر ’اونہوں‘ کرتی تصویر سامنے آتی۔
اسی طرح گھی کے نرخ بھی اس لیے بڑھانے پڑے کہ ملک میں گھی کی کمی ہوگئی ہے۔ چونکہ تحریک انصاف کی انتخابات میں کامیابی کا گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالا گیا تھا اور پھر انگلی بھی امپائر کی تھی۔ اب چونکہ امپائر سیدھی انگلی دکھانے کا عادی ہے اسے انگلی ٹیڑھی کرنے کی عادت نہیں، سو ٹیڑھی انگلی سے نکالتے ہوئے بہت سا گھی ضائع ہوگیا۔ پھر جب نئی حکومت آئی تو ملک بھر میں گھر گھر گھی کے چراغ جلائے گئے۔ ان دنوں ’کہیں دیپ جلے کہیں دل‘ کا منظر تھا اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اس چراغاں میں ٹَنوں کے حساب سے گھی کام آگیا۔ حکومت کے معاشی اقدامات کے باعث عوام کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے، انگلیاں پڑنے کی وجہ سے ناپاک ہوجانے والا گھی کسی کام کا نہیں رہا، سو گھی کی قلت ہوگئی۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔