پاکستان میں صحافیوں پر تشدد کا خاتمہ کیسے ممکن؟

پاکستان میں کسی معاملے پر رپورٹنگ یا تجزیہ کرنے کی وجہ سے صحافیوں پر تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جبکہ اس اضافے کی تازہ مثال حال ہی میں براہ راست دکھائے جانے والے ایک ٹی وی شو کے دوران ایک سیاستدان کی جانب سے سینئر صحافی پر تشدد کیا جانا ہے۔
جون کے آخری ہفتے میں نجی ٹی وی ’کے-21‘ کے ایک پروگرام کے دوران وفاقی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما مسرور سیال نے سینیئر صحافی اور کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران پر اس وقت حملہ کیا جب صحافی نے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں تاخیر کے شکار میٹرو بس منصوبے پر تجزیہ کیا۔
مسرور سیال نے امتیاز خان فاران پر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے پہلے ان کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کیا، بعد ازاں طیش میں آکر ان پر حملہ کردیا۔
صحافی پر تشدد اور ان کے ساتھ بدکلامی پر اگرچہ تحریک انصاف نے مسرور سیال کی پارٹی رکنیت معطل کردی تھی اور خود بھی انہوں نے صحافی سے معذرت کرلی تھی، تاہم یہ سوال اپنی جگہ قائم رہا کہ آخر سیاستدان یا دوسرے طاقتور افراد رپورٹنگ کرنے، سوال اٹھانے یا تجزیہ کرنے پر صحافیوں کو ہی کیوں نشانہ بناتے ہیں؟
اگر پاکستان میں صحافیوں اور صحافتی اداروں پر تشدد کے گزشتہ برس کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ صرف 2018 میں ہی پاکستان بھر میں سیاستدان، بااثر افراد، پولیس اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے 50 کے قریب صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
صحافتی اداروں اور صحافیوں کے تحفظ پر کام کرنے والے ادارے پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی ’اسٹیٹ آف پاکستانی میڈیا‘ نامی گزشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 2018 کے دوران صحافیوں پر جسمانی تشدد اور انہیں ہراساں کیے جانے کے 47 واقعات رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ملک بھر میں 22 صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جن میں سے 5 صحافی شدید زخمی ہوئے، ساتھ ہی صحافیوں کو ہراساں کرنے اور انہیں مارنے پیٹنے کے دیگر 25 واقعات بھی رپورٹ کیے گئے۔
یہی نہیں بلکہ گزشتہ برس پاکستان میں 6 صحافیوں کو قتل بھی کیا گیا، جن صحافیوں کو قتل کیا گیا ان میں چارسدہ پریس کلب کے سیکریٹری جنرل احسان شیرپاؤ، روزنامہ پکار کے سب ایڈیٹر انجم منیر راجا، روزنامہ نوائے وقت کے رپورٹر ذیشان اشرف بٹ، روزنامہ نیا دور کے نمائندے عابد حسین، روزنامہ خبریں کے نمائندے محمد سعید بٹ اور روزنامہ کے ٹو ٹائمز، اے ٹی وی کے نمائندے محمد سہیل خان شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ 2018 میں مارے گئے ان 6 صحافیوں کو پیشہ ورانہ نہیں بلکہ ذاتی وجوہات کی بناء پر قتل کیا گیا۔
لیکن ساتھ ہی اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2018 وہ پہلا سال نہیں تھا، جس میں صحافیوں کو قتل کیے جانے سمیت انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی میڈیا گزشتہ 71 برس سے تشدد، ہراساں کیے جانے اور خون کے واقعات کو برداشت کرتا آ رہا ہے۔
سال 2018 سے قبل 2017 میں بھی صحافیوں کو رپورٹنگ کرنے، سیاستدانوں کی کرپشن اور کرتوت عوام کو دکھائے جانے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹنگ کرنے اور مبینہ طور پر سیاستدانوں کی کرپشن کو سامنے لانے پر 2017 میں تشدد کا نشانہ بننے والے صحافیوں میں سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے صحافی امداد پھلپوٹو بھی ہیں۔
پھلپوٹو کو سکھر پولیس نے جنوری 2017 میں تحویل میں لینے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا۔
پی پی ایف کے مطابق امداد پھلپوٹو کو مبینہ طور پر سیاسی رہنما کے خلاف مسلسل خبریں چلانے کے بعد اٹھایا گیا، بعد ازاں پولیس نے امداد پھلپوٹو کا مقدمہ دائر کرنے سے بھی انکار کردیا۔
واقعے کے حوالے سے امداد پھلپوٹو نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پولیس نے انہیں بااثر سیاستدان کے خلاف خبریں شائع اور نشر کروانے پر نشانہ بنایا.
ان کے مطابق پولیس نے ان کے گھر پر حملہ کرکے انہیں اور ان کے بھائیوں کو گرفتار کیا انہیں کئی گھنٹوں تک حبس بے جا میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں صحافیوں اور میڈیا کے دباؤ پر اس وقت چھوڑا جب ان کے ٹی وی چینل نے انہیں حراست میں لیے جانے اور ان پر تشدد کی خبریں نشر کیں۔
یہ تحریر لکھاری کی پی پی ایف فیلو شپ کا حصہ ہے۔