پاکستان

سینئر صحافی پر تشدد: پی ٹی آئی رہنما کی صحافیوں سے معذرت

ایک سیاسی ورکر ہونے کے ناطے مجھ میں تنقید برداشت کرنے کا مادہ ہونا چاہیے، اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں، مسرور سیال

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مقامی رہنما مسرور سیال نے نجی چینل کے پروگرام میں سینئر صحافی اور کراچی پریس کلب (کے پی سی) کے صدر امتیاز خان فاران پر تشدد کرنے پر پوری صحافی برادری سے معافی مانگ لی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر اپنے وضاحتی بیان میں مسرور سیال نے کہا کہ 'گزشتہ دو روز سے میری ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں بہت منفی پراپیگنڈا کیا جارہا ہے اور میری اور میری جماعت کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'کوئی بھی اپنی ذات یا پارٹی پالیسی پر تنقید برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنے قائد پر، جس کے ساتھ اس کی جذباتی وابستگی ہو اور محبت کا رشتہ ہو، تنقید برداشت نہیں کر سکتا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'غصہ ایک فطری عمل ہے، میں یہ بات کرکے اپنے عمل کا جواز پیش نہیں کر رہا، ایک سیاسی ورکر ہونے کے ناطے مجھ میں تنقید برداشت کرنے کا مادہ ہونا چاہیے، میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں۔'

مسرور سیال کا کہنا تھا کہ 'واقعے کے بعد امتیاز فاران سے صلح ہوگئی تھی لیکن واقعے کے چار روز بعد یہ ویڈیو سامنے آئی، میں اس ویڈیو کے لیک ہونے کی انکوائری کا مطالبہ کرتا ہوں کیونکہ یہ سارا عمل پردے کے پیچھے پروگرام کے بریک میں ہوا تھا، لائیو پروگرام نہیں تھا اور اس بریک میں ہی معاملہ ختم ہوگیا تھا اور امتیاز فاران کے ساتھ میری صلح ہوگئی تھی۔'

انہوں نے کہا کہ 'اس ویڈیو کو جان بوجھ کر لیک کیا گیا اور اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا، ایک جماعت نے اپنی کرپشن اور کالے کرتوت چھپانے کے لیے ایک نان ایشو کو ایشو بنا کر سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی۔'

پی ٹی آئی رہنما نے پوری صحافی برادری سے اپنے عمل کی معذرت کرتے ہوئے کہا کہ 'عمران خان اور پی ٹی آئی آزاد صحافت کی قائل ہے۔'

تحریک انصاف کے رہنماؤں کی پریس کلب میں داخلے پر پابندی

— فوٹو: ڈان نیوز

کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران پر تحریک انصاف کے مقامی رہنما کی جانب سے تشدد کے خلاف کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) دستور کے تحت احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا۔

کراچی پریس کلب میں منعقدہ احتجاجی جلسے میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، کراچی کی تمام نمائندہ صحافتی تنظیموں کے نمائندوں، کراچی پریس کلب کے عہدیداران اور سینئر صحافیوں سمیت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: صحافی پر تشدد: پی ٹی آئی رہنما کو اظہار وجوہ کا نوٹس، پارٹی رکنیت معطل

احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صدر کراچی پریس کلب امتیاز فاران کا کہنا تھا کہ 'یہ واقعات ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں جس کی اسپانسر ریاست ہے اور حکومت اس کی شریک ہے جس سے نمٹنے کے لیے طویل مدتی حکمت عملی مرتب کرنا ضروری ہے۔'

سیکریٹری کراچی پریس کلب ارمان صابر نے واضح کیا کہ واقعے کے بعد گورننگ باڈی نے تحریک انصاف کی مرکزی لیڈرشپ کو وضاحت کے لیے 3 روز کی مہلت دی تھی، مگر اب اس واقعے پر پی ٹی آئی کی مرکزی لیڈرشپ کی جانب سے باقاعدہ معافی مانگنے تک تحریک انصاف کے رہنماؤں کی پریس کلب میں داخلے پر مکمل پابندی عائد رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی پریس کلب نے پہلی مرتبہ کسی برسر اقتدار جماعت کے رہنماؤں کے داخلے پر پابندی عائد کی ہے، تحریک اںصاف کی حکوت مسلسل صحافی دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے خلاف بھرپور عملی جدوجہد ناگزیر ہے۔

سیکریٹری کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور محمد عارف خان نے کہا کہ 'نہ صرف کراچی بلکہ ملک بھر کے صحافی اس معاملے پر متحدہ ہیں اور اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔'

احتجاجی جلسے میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کے عدم برداشت کے رویے، صحافیوں پر تشدد، ملازمتوں سے برطرفی اور تنخواہوں میں کٹوتی سمیت حکومت کی میڈیا دشمن پالیسیوں کے خلاف قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: فواد چوہدری کا صحافی کو تھپڑ، وزارت نے وضاحت کردی

خیال رہے کہ نجی نیوز چینل 'کے 21' کے پروگرام 'نیوز لائن وِد آفتاب مغیری' میں امتیاز فاران کی جانب سے بطور تجزیہ کار پشاور بس ریپڈ ٹرانسپورٹ کا معاملہ کھٹائی میں پڑنے سے متعلق بات کرنے پر مسرور سیال طیش میں آگئے تھے جس کے بعد پہلے دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور پھر پی ٹی آئی رہنما نے سینئر صحافی پر حملہ کر دیا اور گالیاں بھی دیں۔

انہوں نے امتیاز فاران پر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔

پریس کلب کے اراکین نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ہاتھوں پر کالی پٹیاں باندھ کر پی ٹی آئی رہنما کے تشدد کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

گزشتہ روز پی ٹی آئی نے سینئر صحافی پر تشدد کرنے والے اپنے رہنما کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کی پارٹی رکنیت معطل کر دی تھی۔