ایران کے ساتھ امریکا کی انتہا کو پہنچتی کشیدگی کو پاکستانی سوشل میڈیا دانشور پاکستان کا گھیراؤ کرنے کی سازش قرار دیتے نظر آئے۔ ایسا قرار دینے کے لیے انہوں نے امریکی بحری بیڑے کی پاکستان کی سمندری حدود سے مبیّنہ 170 میل کی دوری اور تیل ٹینکروں پر حملے کے بعد بھارتی بحریہ کے خلیج میں گشت کو بطور دلیل اور شواہد پیش کیا۔ ان دانشوروں کے دلائل کو تسلیم کرنے سے پہلے واقعات کی کڑیاں دیکھنا ضروری ہیں کہ حالات اس نہج تک کیوں اور کیسے پہنچے۔
ایران کی امریکا اور عرب ملکوں کے ساتھ کشیدگی کوئی نئی بات نہیں لیکن سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں ایرانی جوہری پروگرام پر بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ معاہدے نے اس کشیدگی کو کچھ عرصے کے لیے دبا دیا تھا۔ لیکن چونکہ نئے آنے والے صدر ٹرمپ کے اوباما سے تعلقات اچھے نہیں اس لیے انہوں نے اپنے پیشرو کے ساتھ ذاتی مخاصمت کی بنیاد پر ناصرف اندرون ملک ان کے کئی پروگراموں کو بند کیا بلکہ خارجہ پالیسی میں بھی اوباما دور کے معاہدوں اور پالیسیوں کو لپیٹنے کی کوشش کی۔
کب اور کیا فیصلے کیے گئے مزید کے لیے کلک کریں
7 مئی 2018ء کو صدر ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی معاہدے کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرکے تازہ کشیدگی کی ابتدا کی۔ 5 اگست 2018ء کو امریکی صدر نے ایران پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا۔ 4 نومبر 2018ء کو ایران کے تیل اور شپنگ انڈسٹری پر پابندیوں کا اعلان ہوا۔ اس سال 7 اپریل کو صدر ٹرمپ نے ایران کے پاسدارانِ انقلاب پر پابندیوں کا اعلان کیا۔ 21 اپریل کو امریکا نے ایرانی تیل کے لیے چند ملکوں کو دیا گیا استثنیٰ بھی ختم کرکے ایرانی معیشت کا گلا گھونٹ دیا۔ 4 مئی کو امریکا کے قومی سلامتی مشیر جان بولٹن نے خطے میں ایئرکرافٹ کیرئیر بھجوانے کا اعلان کیا۔ 7 مئی کو ایران نے جوابی اقدام کے طور پر یورینیم افزودگی بڑھانے کا اعلان کیا۔ 12 مئی کو سعودی عرب کے 2 اور عرب امارات اور ناروے کا ایک ایک تیل ٹینکر سبوتاژ کی کارروائی کا نشانہ بنے۔ 23 مئی کو صدر ٹرمپ نے کانگریس کو بائی پاس کرتے ہوئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو دفاعی سامان بیچنے کا اعلان کیا۔ 12 جون کو مزید 2 ٹینکر سبوتاژ کی کارروائی کا نشانہ بنے۔ ان کارروائیوں کا الزام ایران پر لگایا گیا لیکن ایران نے ناصرف ملوث ہونے کی تردید کی بلکہ امدادی کارروائی بھی کی۔ 17 جون کو ایران نے امریکی ڈرون مار گرایا اور دعویٰ کیا کہ ڈرون نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جبکہ امریکا کا اصرار ہے کہ ڈرون بین الاقوامی حدود میں تھا۔ 19 جون کو صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کا حکم دیا لیکن عین وقت پر حکم واپس لے لیا گیا۔ بعد میں صدر ٹرمپ نے وضاحت کی کہ وہ ہلاکتوں سے بچنے کے لیے حکم واپس لینے پر مجبور ہوئے لیکن اگر ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز نہیں آیا تو ایسی تباہی آئے گی جو پہلے کسی نے نہیں دیکھی ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے مزید وضاحت ایک انٹرویو میں یوں کی کہ ان کی کابینہ میں فاختاؤں کے ساتھ عقاب بھی موجود ہیں اور یہ عقاب انہیں ایران پر حملے کے لیے اکساتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے جان بولٹن اور مائیک پومپیو کا نام لے کر واضح کیا کہ عقاب کون ہیں۔ امریکا کا تازہ ترین اقدام ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای اور وزیرِ خارجہ جواد ظریف سمیت اہم عہدیداروں پر پابندیوں کا اعلان ہے۔ ایران نے اس اقدام کو سفارتکاری کا دروازہ مستقل بند کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ایران کے ساتھ امریکا کی کشیدگی کم کرنے کے لیے جو ملک سرگرم ہیں ان میں جاپان، عمان اور قطر نمایاں ہیں۔ امیر قطر مبیّنہ طور پر 16 مئی کو خفیہ دورے پر تہران پہنچے اور صدر روحانی سے ملاقات کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قطر امریکی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ افغان طالبان کا سیاسی دفتر بھی دوحہ میں ہے۔ روس کے ساتھ قطر کی گیس کے شعبہ میں بڑی شراکت داری بھی ہے۔ امریکا کے دوسرے عرب اتحادیوں کے ساتھ مخاصمت ہے۔
ان حالات میں افغان امن عمل کے لیے بھوربن کانفرنس کے موقع پر امیر قطر کا دورہ اسلام آباد کئی حوالوں سے اہم تھا۔ بین الاقوامی تنازعات کو سفارتکاری کے ذریعے حل کرانے اور کشیدگی کم کرانے کے لیے قطر کا کردار برسوں سے اہم ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر ہونے کے باوجود قطر ایران کے ساتھ بہترین تعلقات رکھتا ہے۔ ماضی میں ایران کے سخت گیر صدر احمدی نژاد بھی قطر کے دورے کرچکے ہیں۔ قطر اور ایران کے حکمرانوں کے تعلقات ذاتی نوعیت کے بھی رہے ہیں۔ اس نوعیت کی سفارتی سرگرمیوں کی وجہ سے قطر پر کئی بار شبہات بھی ظاہر کئے جاتے رہے ہیں لیکن دوحہ اس قسم کی سفارتکاری کا ماہر ہے۔
قطر نے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا لیکن اس کے باوجود افغان طالبان سیاسی دفتر اور مذاکرات کے لیے اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ قطر افغان طالبان کے سخت گیر دھڑے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ بھی روابط رکھتا ہے اور انہی روابط کی وجہ سے قطر نے 2016ء میں ایک کینیڈین مغوی کو حقانی نیٹ ورک کی قید سے آزاد کرایا تھا۔ 2014ء میں قطر نے امریکی فوجی کے بدلے 5 طالبان رہنماؤں کو گوانتاناموبے جیل سے رہا کرایا تھا۔
بھوربن کانفرنس کے موقع پر امیر قطر کی آمد نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ افغان طالبان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان کے زیرِ اثر ہیں لیکن قطر کا اثر و رسوخ کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت کوشش ہو رہی ہے کہ طالبان کسی طرح افغان فریقین کے ساتھ میز پر اکٹھے ہوں لیکن طالبان امریکی انخلا سے پہلے اس پر تیار نہیں ہیں۔ بھوربن کانفرنس کے بعد دوسرا ہدف طالبان اور افغان فریقوں کو آمنے سامنے بٹھانا ہے۔
امیر قطر کے دورے کی اہمیت کی دوسری وجہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی ہے۔ پاکستان ناصرف ایران کا ہمسایہ ہے بلکہ سعودی عرب کا اہم اتحادی اور دفاعی پارٹنر بھی ہے۔ ایران کے ساتھ امریکا اور عرب اتحادیوں کا تصادم پاکستان کو بھی متاثر کرے گا۔ ایران تنازع پر پاکستان اور قطر کا موقف ایک ہے کہ معاملہ مذاکرات سے طے کیا جائے۔
ایران تنازع کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ امریکی صدر کہتے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے لیکن انہیں مجبور کیا جارہا ہے۔ امریکی کابینہ کے عقابوں کے علاوہ جو فریق جنگ چاہتے ہیں ان میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ خلیج عمان میں سبوتاژ کی مشکوک کارروائیوں سے بھی لگتا ہے کہ کوئی فریق خطے کو جنگ میں دھکیلنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
سبوتاژ کی کارروائیوں کے جو شواہد سامنے آئے ہیں وہ نامکمل ہیں اور کسی بھی فریق کے مکمل سچے ہونے کی دلیل نہیں۔
اس پوری صورتحال میں اہم بات یہ کہ 12 مئی کی ناروے کے ٹینکر پر جو حملہ ہوا اس کا الزام فوری طور پر ایران پر لگادیا گیا، حالانکہ دشمن کی کارروائی سے متاثر ہونے کی صورت میں انشورنس کلیم نہیں ملتا، لیکن اس نقصان کو پیشِ نظر رکھنے کے بعد بھی اگر ناروے یہ الزام ایران پر لگا رہا ہے تو کچھ نہ کچھ وجہ تو ہوگی۔
پھر ایک اور اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ سبوتاژ کی ان کارروائیوں کے دوران دھماکوں کی آواز کسی اور نزدیکی بحری جہاز یا ٹینکر کے عملے کو سنائی کیوں نہیں دی؟ عرب امارات اپنے پانیوں کے قریب اپنے اہم کاروبار کی حفاظت میں کیوں اور کیسے ناکام رہا؟ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کا نیٹ ورک بھی ایسی کارروائیوں کا اہل ہے لیکن یاد رہے کہ وہ ایرانی حکومت کے بجائے سپریم لیڈر کو جواب دہ ہے۔
ایران کو سبق سکھانے کے شدت سے خواہشمند سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، اس سے قطع نظر وہ خود بھیانک اثرات سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ سعودی عرب کا ابھا ایئرپورٹ 2 مرتبہ ایران نواز حوثی باغیوں کے ڈرون حملوں کا شکار ہوچکا ہے۔ تیل پائپ لائنیں بھی محفوظ نہیں رہیں، اور اگر خدانخواستہ جنگ ہوتی ہے تو عرب امارات ایرانی میزائلوں سے بھی بچا نہیں رہے گا۔
آصف شاہد
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔