مرشد کا عذاب؟
پھر وہی قطار در قطار خیمے تھے۔ کہیں مکلی کے کھلے آسمان تلے تو کہیں بدین کے دور دراز علا ئقے پیرو شاہ اسٹیشن کے قریب ہی شاہ گریو کے مزار کے سائے میں اب خانہ بدوشوں نے پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔
بھوک سے بلکتے بچے، امداد کے سامان پہ عورتیں کی قطاریں، خیموں میں کھانستے بوڑھے اور چند ایک اپنے پیچھے چھوڑے گھروں کو روتی یا سرد آہیں بھرنے والی بوڑھی عورتیں۔
شاہ گریو کا یہ کوئی نیا منظر نہ تھا۔ پچھلے چار سال سے مختلف اوقات و مختلف شہروں میں یہی خیمہ بستیاں ہیں، جو ایک دفعہ بس جاتی ہیں تو پھر مکینون کے جانے سے اجڑتی نہیں کیونکہ جلد ہی کسی اور جگہ سے کوئی اور قافلہِ آفت زدہ زندگی کو لیئے مارا مارا آن پہنچتا ہے اور یوں خیمہ بستیوں کا منظر سندھ کے بیک ڈراپ کا اک مستقل حصہ بن چکا ہے۔
یہ چوتھا سال ہونے جا رہا ہے کہ سندھ میں ان خیمہ بستیوں کے قیام کا سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آرہا ہے مگر شاہ گریو کے مزار کا یہ منظر کچھ اس طرح سے مختلف تھا کہ اس بار لوگ کسی قدرتی آفت کا شکار ہو کر یہاں پہ نہیں آئے تھے اور نہ ہی کسی حکومتی پلاننگ سے ان کو یہاں بسایا گیا تھا۔ پیرو شاہ اسٹشن کے قریب شاہ گریو کے مزار پہ پناہ لینے والے یہ لوگ کراچی کی گینگ وار کے ستائے ہوئے تھے۔
اان خالی ہاتھہ گھر سے نکلنے والے، صرف دوپٹہ ڈالے بچوں کو گود میں اٹھائے پیچھے کسی بوڑھی یا اک دو مرد کو چھوڑ کر یوں اس ویرانے کی طرف نکل پڑنے والوں کی بپتا کچھ دوسری تھی۔ یہ قدرتی آفت زدہ لوگوں کی خانہ بدوشی نہیں تھی بلکہ پچھلے دو سال سے اپنے ہی گھروں میں سرکار کو مدد کے لیئے پکارتی اس کچّھی برادری کی نقل مکانی تھی جو ہزاروں کی تعداد میں کوئی ایک ہفتہ پہلے اپنے گھروں سے نکل کر دور دراز کے رشتہ داروں اور مزاروں پہ پناہ لینے پہ مجبور ہے۔
رن کچھ سے ہجرت ضرور کی لیکن یہاں آکر بھی کچّھی کہلائے۔ کراچی پہ قبضہ گیری اور سیاسی کنٹرول والی خونریز جنگ سے پہلے لیاری اور اسکے گردو نواح، آگرہ تاج، ہنگورہ آباد، رہموں پاڑو میں بسنے والے ان ہنگوروں، راہموں، سومروں، میمنوں اور سموں کا بلوچوں سے کبھی کوئی نسلی تصادم نہیں رہا.
کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے سانجھے شریک، آخر کو ایسی کیا ہوا چلی، ایسا کیا نیا ہوا کہ اچانک کچّھی آبادی کے لوگ یوں نقل مکانی پہ مجبور ہوگئے؟
آخر ریاستی ادارے اور حکومت کس چڑیا کا نام ہیں کہ ہزاروں لوگ اپنے مکان چھوڑنے پہ مجبور ہوئے اور انکو کانون کان خبر تک نھ ہوئی؟
اس انسانی المیے کو اگر سیاست کی زبان میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یقیناً انسانیت ہی اسکا پہلا شکار ہوگی کہ ٹھٹہ، بدین اور سندھ کے مختلف علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے والے متحدہ اور پی پی پی کی لیاری پہ قبضہ گیری والی سیاست کا شکار بن رہے ہیں۔
سیاسی تجزیوں میں کچھی رابطہ کمیٹی کو متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچ امن کمیٹی کو پیپلز پارٹی کا برین چائلڈ سمجھا جا رہا ھے، اور لیاری کا یہ تصادم دراصل ایم کیو ایم اور پی پی پی کی پراکسی کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ایک بات پہ سب ہی متفق ہیں کہ اصل جھگڑا ماری پور روڈ پہ کنٹرول کا ہے۔ ماری پور پہ قبضہ صرف کراچی پہ سیاسی تسلط کا نہیں ہے۔ ماری پور روڈ جو پورٹ کو باقی ماندہ ملک تک پہنچاتا ھہ ے اس پہ قبضہ عالمی مفاد والی سیاست سے یوں جڑا ہوا ہے کہ 2014 میں نیٹو فورسز کا انخلا اسی رستے سے ہونا ہے۔
جس سیاسی جماعت کو اس شہر کی ملکیت کا دعویٰ تھا اس کی گرفت اس الیکشن کے بعد کمزور نظر آتی ہے اور عالمی قوتوں کے ساتھ ان کے ماضی کے یارانوں میں بھی واضح تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں.
یوں لگتا ہے کے ماضی کے برعکس عام ہڑتال کے دنوں میں اب ماری پور روڈ پر چلنے والی ٹرانسپورٹ پر اس سیاسی پارٹی کا کوئی اختیار نہیں رہا ہے لہٰذا نیٹو اب اپنی واپسی اور ٹرانسپورٹیشن کے لیئے تحفظ کی ضمانت کسی اور گروہ سے لینے کا مجاز ہوگا جو اس روڈ کو ایک اشارے پہ بند کروانے اور کھلوانے کا اختیار رکھتا ہو۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پر امن سیاسی جماعت کے برعکس کسی آرمڈ گروپ کا یوں منظم ہو کر ابھرنا اپنے 'اصلی تے وڈے گھاک کھلاڑیوں' کا کھیل بھی ہوسکتا ہے۔
اس کھیل میں شکار کون ہے اور شکاری کون، یہ ہم عام لوگوں کے سمجھنے کا قصہ نہیں، جو پراکسی جنگ کے داؤ پیچ جانتے ہیں صرف وہی سمجھ سکتے ہیں کہ اصل میں بلوچ اور کچھی لوگوں کی جنگ کس کی پراکسی ہے؟
امرسندھو ایک لکھاری، سماجی کارکن اور کالم نگار ہیں۔ ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔