مقتول صحافیوں کے اہلخانہ صلح پر مجبور کیوں؟
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں سخت مشکلات اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور مشکلات کا اندازا اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ 18 برس میں ملک میں قتل ہونے والے 72 میں سے صرف 5 صحافیوں کے قتل کیسز میں ملزمان کو سزائیں ہوئیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ صحافیوں کے قتل کے جن مقدمات میں ملزمان کو عدالتوں نے فیصلے سنائے، ان میں بھی ان ملزمان کی سزاؤں پر تاحال عمل نہیں ہوسکا، جبکہ بعض مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’پاکستان پریس فاؤنڈیشن‘ (پی پی ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق قتل کیے جانے والے 5 صحافیوں ڈینیئل پرل، نثار احمد سولنگی، عبدالرزاق جاڑا، ولی خان بابر اور ایوب خان خٹک کے مقدمات میں عدالتوں نے ملزمان کو سزائیں سنائیں، تاہم ان کیسز میں بھی جن مجرمان کو پھانسی کی سزائیں ہوئیں ان پر تاحال عمل نہیں ہو سکا۔
پاکستان میں گزشتہ 18 برس میں اب تک جن مقتول صحافیوں کے ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں ان میں امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینیئل پرل بھی شامل ہیں، جنہیں صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 22 فروری 2002 کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا، عدالت نے اسی سال جولائی میں قتل میں ملوث مرکزی ملزم عمر سعید شیخ کو موت جب کہ دیگر تین ملزمان کو عمر قید سمیت جرمانے کی سزا سنائی تھی، تاہم تمام ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی، جس پر تاحال سماعت نہیں ہوسکی۔
پی پی ایف کے مطابق ڈینیئل پرل کی طرح سندھی اخبار روزنامہ خبروں کے صحافی نثار احمد سولنگی کے قتل کے ملزمان کو بھی سزائیں ہوئیں، نثار احمد کو 2007 میں مبینہ طور پر جونیجو برادران نے قتل کیا تھا اور مقتول صحافی کے ورثاء نے جرگہ کرکے ملزمان سےخون بہا کی رقم لے کر صلح کرلی تھی مگر سیشن کورٹ خیرپور نے واقعے کا نوٹس لے کر2012 میں 2 مرکزی ملزمان کو 25 سال قید کی سزا سنائی جب کہ دیگر ملزمان کو بری کردیا۔
اسی طرح نجی ٹی وی رائل نیوز کے صحافی عبدالرزاق جاڑا کو 2008 میں قتل کیا گیا تھا اور میانوالی کی سیشن کورٹ نے 2009 میں مرکزی ملزم منیر حسین کو سزائے موت اور ایک ملزم کو بری کردیا تھا اور قتل میں ملوث دوسرے ملزم کو عدالت کی جانب سے بری کیے جانے کے فیصلے کو مقتول صحافی کے اہل خانہ نے 2013 میں لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو عدالت نے سزائے موت کے ملزم کی سزا عمر قید میں بدل کر دوسرے ملزم کو بری کردیا۔