پاکستان

سینیٹ نے بجٹ تجاویز منظور کرکے قومی اسمبلی کو بھجوا دیں

تجاویز میں ڈالر کو 150 روپے پر منجمد کرنے، 10 لاکھ روپے تک کے سالانہ آمدن پر ٹیکس چھوٹ دینے کی سفارشات بھی شامل ہیں۔

سینیٹ نے وفاقی بجٹ کے لیے تجاویز منظور کر لیں جو قومی اسمبلی کو سفارشات کے طور پر بھجوا دی گئی ہیں۔

سینیٹ کی جانب سے پیش کی گئی سفارشات میں کہا گیا کہ گریڈ 16 تک ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے، پینشن 15 فیصد بڑھائی جائے اور گریڈ 17 یا اس سے اوپر کے ملازمین کو تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائے جبکہ کم از کم ماہانہ اجرت 18 ہزار 600 روپے مقرر کی جائے۔

ملازمت پیشہ افراد کے لیے اِنکم ٹیکس چھوٹ کے حوالے سے اسے سالانہ 6 لاکھ کی بجائے 10 لاکھ روپے آمدن تک لے جانے کی تجویز دی گئی اور گریڈ 16 تک کے سرکاری ملازمین کو بھی انکم ٹیکس سے استثنیٰ دینے کا کہا گیا۔

مزید پڑھیں: مالی سال 20-2019 کیلئے 70 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش

سینیٹ نے وفاقی حکومت سے چینی کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے کمی کرنے کے اقدامات کرنے کا کہا۔

سفارشات میں کہا گیا ہے کہ نیشنل کمیشن فور ہیومن ڈیولپمنٹ (این سی ایچ ڈی) ٹیچرز کی تنخواہیں ساڑھے 17 ہزار روپے مقرر کی جائی اور ایچ ای سی کا بجٹ 70 ارب روپے کیا جائے۔

پری پیڈ موبائل فون صارفین سے لیا جانے والا ایڈوانس ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی اور سود کا جلد از جلد خاتمہ کرنے، صحت کے بجٹ پر کٹوتی نہ کرنے، تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرنے کا کہا گیا۔

تجویز میں آرمی افسران کو تنخواہوں میں سالانہ اضافے سے محروم نہ کرنے، لائن آف کنٹرول ریلیف پیکیج میں کٹوتی نہ کرنے کا کہا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: لیگی بمقابلہ انصافی بجٹ

سینیٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے قبائلی علاقے فاٹا اور پاٹا پر 17 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کی تجویز کو بھی واپس لینے کی سفارش کی۔

سی پیک منصوبوں کے علاوہ ترقیاتی بجٹ کو گزشتہ برس کی سطح پر منجمد کرنے کا کہا گیا، ہزار سی سی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے اور ڈالر کی قیمت 150 روپے پر منجمد کرنے کی تجویز دی گئی۔

سفارشات میں پانچ مرلہ اور 60 لاکھ روپے مالیت کی پراپرٹی پر ایڈوانس ٹیکس ختم کرنے، نیو گوادر ایئرپورٹ اور سی پیک شاہراؤں کی تعمیر کو جلد از جلد مکمل کرنے کا کہا گیا۔

سینیٹ نے تجویز دی کہ وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے عام شہریوں کا ڈیٹا ویب سائٹ پر نہ ڈالا جائے اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اور قرضوں سے متعلق دیگر معاہدے پارلیمنٹ میں پیش کیے جائیں۔