پاکستان

بڑھتی ہوئی شکایات کے پیش نظر ایف آئی اے سائبر کرائم سینٹرز کی تعداد میں اضافہ

حکومت نے 38گاڑیوں اور 50موٹر سائیکلوں کی بھی منظوری دے دی جو چند ماہ میں سینٹرز کو مہیا ہوجائیں گی، ڈائریکٹر ایف آئی اے

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے ملک میں سائبر کرائم کی شکایتوں سے نمٹنے کے لیے اپنے آپریشن کو وسیع کرتے ہوئے ملک میں مزید سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹرز (سی سی آر سیز) قائم کردیے۔

ابتدائی طور پر یہ سی سی آر سیز ایف آئی اے کے پولیس اسٹیشنز بھی کہلائے جائیں گے۔

واضح رہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک ملک میں ان سینٹرز کی تعداد صرف 5 تھی تاہم بڑھتی ہوئی شکایتوں کے پیش نظر اس میں مزید اضافے کا فیصلہ کیا گیا۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے محمد افضل بٹ نے ڈان کو بتایا کہ ملک میں مزید 10 سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جس کے بعد ان کی تعداد اب بڑھ کر 15 ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے کو سائبر کرائم کے 15 نئے شکایتی مراکز قائم کرنے کی اجازت

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں کوئٹہ اور گوادر، سندھ میں کراچی حیدرآباد اور سکھر، پنجاب میں لاہور، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور راولپنڈی، خیبرپختونخوا میں پشاور، ایبٹ آباد اور ڈیرہ اسماعیل خان جبکہ گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں بھی ایک ایک سینٹر قائم کیا گیا ہے۔

ان سینٹرز کے امور ڈپٹی ڈائریکٹر چلاتے ہیں، سی سی آر سیز ایک زون بناتا ہے جبکہ ملک میں مجموعی طور پر 5 زون ہیں جن میں گلگت بلتستان کو اسلام آباد میں منسلک کر دیا گیا ہے۔

ہر زون کا ذمہ دار ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر ہر زون کا ذمہ دار ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ سائبر کرائم میں شہریوں کی شکایتوں پر سست روی سے کام کرنا کیوں مشکل ہورہا ہے تو محمد افضل بٹ نے بتایا کہ سی سی آر سیز کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ نئے قائم کیے گئے سینٹرز کے پاس اپنی گاڑی ہی موجود نہیں جبکہ تکنیکی حد بندی اور سوشل میڈیا ایپ کی انتظامیہ کی جانب سے مکمل تعاون نہ ملنے کی وجہ سے معاملات سست روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: سائبر کرائم کے مجرم کو 8 سال قید کی سزا

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے سی سی آر سیز کے لیے 38 گاڑیوں اور 50 موٹر سائیکلوں کی منظوری دے دی ہے، جو چند ماہ کے اندر ادارے کے پاس آجائیں گی۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے نے بتایا کہ سائبر کرائم کے ساتھ نبرد آزما ہونے میں مزید کچھ قانونی خلا باقی ہے جسے پُر کرنا بہت ضروری ہے جو قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

شکایت درج کرنے کے طریقہ کار سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'شکایتیں سی سی آر سیز جا کر بھی درج کروائی جاسکتی ہیں جبکہ اس حوالے سے ایف آئی اے کے ویب پورٹل پر شکایت درج کروانے کے لیے فارم بھی موجود ہے۔

خیال رہے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر کمپنیوں کے پاکستان میں دفاتر موجود نہیں ہیں تاہم ایف آئی اے کو کسی شکایت کے نتیجے میں درکار معلومات حاصل کرنے کے لیے ان کمپنیوں کے امریکا میں موجود دفاتر سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: 'سائبر کرائم کی رپورٹس میں ریکارڈ اضافہ'

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ ٹوئٹر کی انتظامیہ کو ادارے کی جانب سے 6 ہزار ایک سو 37 شکایتیں ارسال کی گئیں جو جعلی اکاؤنٹس سے متعلق تھیں، تاہم ان میں سے کسی کا جواب نہیں دیا گیا کیونکہ ادارے کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں پاکستان اور امریکا کے درمیان باہمی قانونی معاونت معاہدہ (ایم ایل اے ٹی) کا ہونا ضروری ہے۔

تاہم محمد افضل بٹ نے ملک میں سوشل میڈیا کے منفی رجحان کو روکنے، جرائم پیشہ افراد کی بینک اکاؤنٹس اور اے ٹی ایم سے پیسہ نکلوانے کی وارداتوں کو روکنے کے لیے موثر حفاظتی طریقہ کار کی ضرورت ہے۔


یہ خبر 24 جون 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی