دنیا

ترکی: استنبول کے میئر کے انتخاب میں اردوان کی جماعت کو دوبارہ شکست

اپوزیشن کے امیدوار اکریم امام اوغلو نے 54 اعشاریہ 3 فیصد اور بن علی یلدرم نے 53اعشاریہ9 فیصد ووٹ حاصل کیے، میڈیا رپورٹ

ترکی کے شہر استبنول کے میئر کے لیے دوسری مرتبہ منعقدہ متنازع انتخاب میں صدر رجب طیب اردوان کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ (اے کے) پارٹی کے امیدوار بن علی یلدرم کو حزب مخالف کے مشترکہ امیدوار اکریم امام اوغلو نے واضح مارجن سے شکست دے دی۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی نتائمج میں بن علی یلدرم کو شکست ہوئی ہے اور ان کے مخالف امیدوار اکریم امام اوغلو نے موصول ہونے والے 95 فیصد نتائج کے مطابق 53 اعشاریہ 69 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔

بن علی یلدرم کا کہنا تھا کہ ‘نتائج کے مطابق میرے حریف امام اوغلو کو برتری حاصل ہے، میں انہیں مبارک باد دیتا ہوں اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں’۔

مزید پڑھیں:استنبول میں دوبارہ بلدیاتی انتخاب کروانے کا حکم

ٹی آر ٹی کے مطابق اکریم امام اوغلو نے 46 لاکھ 98 ہزار 782 ووٹ حاصل کیے جو 54 اعشاریہ تین فیصد بنتے ہیں جبکہ بن علی یلدرم نے 39 لاکھ 21 ہزار 201 ووٹ حاصل کیے جو 45 اعشاریہ 9 فیصد ہیں۔

یاد رہے کہ 31 مارچ کو ہونے والے میئر کے انتخاب میں اپوزیشن ریپبلکن پیپلز پارٹی کے اکریم امام اوغلو نے بہت قریبی مارجن سے حکمراں جماعت کے امیدوار، سابق وزیراعظم بن علی یلدرم کو شکست دی تھی، جس کے بعد انتخابات میں سامنے آنے والے بے ضابطگیوں نے انتخابی نتائج کو غیر قانونی بنادیا۔

ترکی کے الیکشن حکام نے 7 مئی کو صدر طیب اردوان کی جماعت کی جانب سے دائر درخواست کو منظور کرتے ہوئے اکریم امام اوغلو کی کامیابی کو کالعدم قرار دیا تھا اور استنبول کے میئر کا انتخاب دوبارہ کروانے کا حکم دے دیا تھا۔

اپوزیشن رہنماؤں نے سپریم الیکٹورل بورڈ کی جانب سے استنبول کے نتائج کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر طیب اردوان کی طاقت اور ترک جمہوریت پر گرفت کے حوالے سے خدشات پیدا کردیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:رجب طیب اردوان کی جماعت 25 سال بعد استنبول میں ناکام

دوسری جانب صدر طیب اردوان کے معاون اعلیٰ نے اپنے بیان میں کہا تھا ترکی کے سب سے بڑے شہر کے میئر کا انتخاب کالعدم قرار دینا ’ترک جمہوریت کی فتح‘ ہے۔

ترکی میں 31 مارچ کو مقامی انتخابات ہوئے تھے جس میں صدر طیب اردوان کی جماعت کو نہ صرف استنبول بلکہ انقرہ کے سٹی ہال میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یوں 25 سال بعد جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو بڑا سیاسی دھچکا لگا تھا۔

استنبول میں دوبارہ شکست کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دوبارہ ناکامی سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور اپوزیشن کے سامنے انہیں سبکی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کامیابی کی صورت میں انہیں اپوزیشن کی جانب سے ہمیشہ انتخابات چوری کرنے کا الزام دیا جاتا۔