1 تہران کو قائل کیا جاسکے کہ وہ معاہدے میں شامل یورینیم افزودگی کی سطحوں اور اسٹاکس سمیت دیگر حدود کو عبور نہ کرے۔
2: ایک بین الاقوامی میکینزم بنایا جائے (انسٹیکس Instex کے ساتھ جوڑتے ہوئے) تاکہ ایران معاہدے میں موجود شرائط کے مطابق تجارت کرسکے۔
3: امریکا پر زور دیا جائے کہ کم از کم ایران کی جانب سے اعتماد سازی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے جواب میں ایک قدم بڑھاتے ہوئے وہ ایران پر سے اپنی نافذ کردہ یکطرفہ پابندیاں اٹھادے۔
4: ایران کو لاحق شام، لبنان، عراق، یمن اور افغانستان سمیت پورے خطے پر امریکی پالیسی کے حوالے سے وسیع خدشات پر گفتگو اور اس کے حل کے لیے ایران کے معاہدے کا تحفظ کیا جائے۔
5: ایک ایسا میکینزم بنایا جائے جس کے تحت خطے میں میزائل اور اسلحہ سازی کو قابو کرنے سے متعلق بات چیت کی جاسکے۔
جاپانی وزیرِاعظم کے تہران کے حالیہ دورے کے موقعے پر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے امریکا کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے اعلان کے باوجود بھی ایسا ممکن نہیں کہ ایران مذاکرات کے سارے دروازے بند رکھے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ جاوید ظریف کے حالیہ چند بیانات میں یہ تذکرہ ملتا ہے کہ وہ تمام مسائل پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ (انہوں نے مجھے ایک بار بتایا تھا کہ ایران نے 02ء-2001ء میں امریکا کو گرینڈ بارگین کی تجویز دی تھی، تاہم انہیں ستمبر 2002ء میں جارج ڈبلیو بش کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی صورت یہ جواب ملا تھا کہ ایران کو 'Axis of evil' میں شامل کردیا گیا تھا۔)
ٹرمپ انتظامیہ ایران کے حوالے سے اپنی پالیسی پر اندرونی اختلافات کا شکار نظر آتی ہے۔ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ سخت گیر افراد، جیسے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن اور سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو، ٹرمپ کو ایران جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ تاہم ممکن ہے کہ ٹرمپ، شعوری یا لاشعوری طور پر، انہیں اپنی ‘آرٹ آف دی ڈیل‘ مذاکراتی حکمت عملی کے حصے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا سب سے اہم مقصد 2020ء میں ہونے والے انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کرنا ہے۔ ایران کے ساتھ معاملات طے کرنے میں 'کامیابی' سے ان کے انتخابی امکانات روشن ہوجائیں گے۔
مگر غیر یقینی نتائج کی وجہ بننے والی جنگ کی طرف جانا ایک رسک سے بھرپور حکمت عملی ہے۔ ڈرون مار گرانے پر ان کا ردِعمل کافی حد تک نپا تلا رہا ہے۔ ٹرمپ کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہی ایک ترجیحی آپشن ہوگا۔
اگرچہ ایران ہمیشہ سہل پڑوسی ثابت نہیں ہوتا، لیکن پاکستان کے پاس ایران کے خلاف جنگ روکنے کی کئی وجوہات ہیں۔ گزشتہ 40 برسوں کے دوران کئی 'آزاد' مسلم ریاستوں کو تدریجی طور پر حملے کا نشانہ بنایا جاچکا ہے، مثلاً عراق، شام، لیبیا، سوڈان۔ اگر ایران فوجی اور اقتصادی لحاظ سے تباہ و برباد کردیا جاتا ہے تو پھر اگلا نمبر کس کا ہوگا؟
یہ مضمون 23 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔