دنیا

ایران پر جوابی حملے کا حکم دے کر واپس لیا، ڈونلڈ ٹرمپ

ایران کبھی امریکا اور دنیا کے خلاف جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا، پابندیوں میں مزید اضافہ کردیا، امریکی صدر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرون کو نشانہ بنانے پر گزشتہ شب ایران کے 3 مختلف مقامات پر جوابی حملے کا حکم دیا تھا جسے طے شدہ وقت سے 10 منٹ قبل روکا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر کیے گئے مختلف ٹوئٹس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ 'سابق صدر براک اوباما نے ایران کے ساتھ مایوس کن اور ہولناک معاہدہ کیا، انہیں 150 ارب ڈالر دیئے اس کے علاوہ ایک ارب 80 کروڑ ڈالر نقد دیئے۔'

انہوں نے کہا کہ 'ایران بہت بڑی مشکل میں مبتلا تھا اور اوباما نے انہیں اس مشکل سے نکالا، جوہری ہتھیاروں کے لیے مفت راستہ دیا۔'

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران نے مشکور ہونے کے بجائے امریکا کی مخالفت کی، میں نے معاہدہ ختم کردیا جسے کانگریس کی جانب سے بھی تسلیم نہیں کیا گیا تھا اور ان پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ ایران آج میرے صدارتی دور کے آغاز کے مقابلے میں ایک کمزور ملک ہے جب وہ پورے مشرق وسطیٰ میں بڑے مسائل کی وجہ بن رہے تھے اور اب وہ تباہ ہوگیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'امریکی ڈرون کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے ناقابل تردید شواہد موجود'

ان کا کہنا تھا کہ ایران نے بین الاقوامی سمندر میں محو پرواز ڈرون کو مار گرایا، گزشتہ رات ہم جوابی کارروائی کے لیے 3 مختلف مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے ہتھیاروں سے لیس تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جب میں نے پوچھا کہ حملوں کے نتیجے میں کتنے لوگ مریں گے تو ایک جنرل نے جواب دیا کہ 150 جس کے بعد حملے سے 10 منٹ قبل میں نے امریکی فوج کو روک دیا، کیونکہ ایک ڈرون کے بدلے اتنی ہلاکتیں ٹھیک نہیں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے، ہماری فوج ہمہ وقت تیار ہے، ایران پر پابندیاں سخت ہیں اور گزشتہ رات ان میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ ایران کبھی امریکا اور دنیا کے خلاف جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔

نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ آبنائے ہرمز کے قریب امریکی ڈرون مار گرانے کے ردعمل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے محدود ایرانی اہداف پر جوابی حملے کے احکامات جاری کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی ڈرون گرانے کا واقعہ: ایران نے بہت بڑی غلطی کی، ڈونلڈ ٹرمپ

اخبار نے کہا تھا کہ امریکا، ایرانی اہداف جیسا کہ ریڈار اور میزائل ڈیپو کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، لیکن اس منصوبے کو ابتدائی مراحل ہی میں اچانک منسوخ کردیا گیا۔

اس حوالے سے 'دی ٹائمز ' نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون حکام نے امریکا کی منصوبہ بندی پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ واضح نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوابی حملہ موخر کیا ہے یا اسے منسوخ کیا ہے۔

گزشتہ روز ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرانے کے ردعمل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کیا تھا کہ 'ایران نے بہت بڑی غلطی کی'۔

بعد ازاں وائٹ ہاؤس میں انہوں نے کہا کہ 'یہ ملک اس کے لیے کھڑا نہیں ہوگا اور یہ میں آپ کو بتا سکتا ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'میرے لیے یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ حملہ دانستہ طور پر کیا گیا، میرا خیال ہے کہ یہ کسی احمق شخص کی جانب سے ہی کیا جاسکتا ہے'۔

امریکی صدر کے ملے جلے پیغام سے دنیا کو یہ واضح نہیں ہوسکا کہ واشنگٹن کا اگلا اقدام کیا ہوگا۔

دوسری جانب ایران نے احتجاج کے لیے سوئیڈن کے سفارت کار کو طلب کیا تھا اور نائب وزیر خارجہ عباس نے سوئیڈن کے سفارت کار کو ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے متعلق 'ناقابل تردید' شواہد فراہم کیے۔

نائب وزیر خارجہ نے سوئس سفارت کار کو بتایا تھا کہ 'یہاں تک کہ ڈرون کے ملبے کا کچھ حصہ ایرانی سمندری حدود سے برآمد گیا تھا'۔

انہوں نے اس موقف کو دہرایا تھا کہ 'ایران خلیج فارس میں جنگ اور تنازع نہیں چاہتا لیکن خبردار کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کسی جارحیت کے خلاف اپنی سرزمین کا دفاع کرنے میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہچکچائے گا'۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ایران، اقوام متحدہ میں ثابت کرے گا کہ ڈرون گرائے جانے سے قبل وہ تہران کی فضائی حدود میں داخل ہوا تھا'۔

مزید پڑھیں: ایران: پاسداران انقلاب کا امریکی جاسوس ڈرون مار گرانے کا دعویٰ

انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ 'ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن پرجوش طریقے سے اپنی فضا، سرزمین اور سمندر کا دفاع کریں گے'۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ایران کی پاسداران انقلاب نے جنوبی ساحلی پٹی پر امریکی جاسوس ڈرون مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔

پاسداران انقلاب کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کوہ مبارک نامی حصے میں ایرانی فضائیہ نے امریکی ساختہ گلوبل ہاک ڈرون کو ملک کی فضائی سرحد کی خلاف ورزی پر نشانہ بنایا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ آر کیو 4 گلوبل ہاک نامی امریکی ڈرون انتہائی بلندی پر 30 گھنٹے سے زائد محو پرواز رہ سکتا ہے۔

اس ڈرون میں نصب جدید آلات انتہائی خراب موسم میں بھی خطے میں ہونے والی کسی بھی نقل و حرکت کی بہترین عکس بندی کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے تصدیق کی تھی کہ ایرانی فورسز نے نگرانی پر مامور امریکی نیوی کے ڈرون آر کیو-4 گلوبل ہاک مار گرایا، تاہم ان کا کا اصرار ہے کہ ڈرون کو بین الاقوامی فضائی حدود میں بلاوجہ نشانہ بنایا گیا۔

سینٹرل کمانڈ کے ترجمان نیوی کیپٹن بل اربن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایرانی فورسز نے آبنائے ہرمز میں بین الاقوامی فضائی حدود میں موجود ڈرون کو نشانہ بنایا۔

ترجمان نے مزید کہا تھا کہ ’ایران کی جانب سے ڈرون کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی خبر جھوٹی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: خلیج عمان میں 2 تیل بردار بحری جہازوں پر ' حملہ '

واضح رہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر تنازع میں شدت کے بعد تہران کو دباؤ میں لانے کے لیے خلیج فارس میں بی 52 بمبار سمیت متعدد طیارے اور جنگی بحری بیڑا اتارنے کے بعد اسالٹ شپ اور پیٹرائٹ میزائل دفاعی نظام تعینات کیے تھے۔

گزشتہ ایک ماہ کے اندر امریکا، مشرق وسطیٰ میں مرحلہ وار ڈھائی ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کرچکا ہے۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سیکیورٹی مشیر جان بولٹن نے کہا تھا کہ مذکورہ اقدام کا مقصد ایران کو واضح اور غیر مبہم پیغام دینا ہے کہ اگر اس نے امریکا یا خطے میں اس کے کسی پارٹنر پر حملہ کیا تو نتائج سنگین ہوں گے۔

اسی دوران خلیج عمان میں 4 تیل بردار جہازوں پر حملہ ہوا اور امریکا نے حملے کا الزام ایران پر عائد کیا۔

واشنگٹن نے اپنے دعوے کے دفاع میں ایک ویڈیو بھی نشر کی جس میں پاسداران انقلاب کی ایک کشتی کو تیل بردار جہاز کے پاس دیکھا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب ایران نے امریکی الزام کو من گھڑت قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

گذشتہ ہفتے خلیج عمان میں ایک مرتبہ پھر 2 تیل برداروں پر حملہ کیا گیا تھا جس کا الزام بھی ایران پر عائد کیا گیا تھا۔