نقطہ نظر

پولینڈ کی دیہی زندگی کا دیدار

بذریعہ موٹروے منزل پر سوا 3 گھنٹے میں پہنچا جاسکتا تھا لیکن دیہاتی زندگی کا عکس دیکھنے کی آرزو مجھے اس سڑک پر لے آئی تھی

آج سفر کی ہی بات کرتے ہیں، منزلوں کو پھر کبھی اپنا موضوع بنائیں گے۔ کبھی کبھی سفر منزل سے زیادہ بھا جاتا ہے، اگر راستے پر فطرت کے رنگ بکھرے ہوں تو نظارے اپنی فرحت بخشی سے ایک قرار کا سا احساس پیدا کرتے ہیں، جس کا اپنا ہی الگ لُطف ہوتا ہے۔

ابھی چند گھنٹے پہلے پولینڈ سے واپس لوٹا ہوں، پولینڈ کے شہر کراکو سے وارسا یعنی دارالحکومت تک بذریعہ کار سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ میرا کراکو میں قیام 2 راتوں کا، جبکہ وارسا میں قیام ایک رات کا تھا، اس لیے تقریباً ایک ہی راستے سے آنے اور جانے کا اتفاق ہوا۔ ٹریفک کے نارمل بھاؤ میں یہ راستہ تقریباً 5 گھنٹوں میں طے ہوجاتا ہے۔

میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بذریعہ موٹر وے اس منزل پر سوا 3 گھنٹے میں پہنچا جاسکتا تھا لیکن پولینڈ کی دیہاتی زندگی کا عکس دیکھنے کی آرزو مجھے اس سڑک پر لے آئی تھی۔

کراکو شہر سے باہر نکلے ہی تھے کہ ایسا لگا جیسے کسی پہاڑی علاقے کی ڈھلوان سے نیچے کی طرف چلے آئے ہوں۔ دونوں طرف گھنا جنگل ہونے کا گمان ہوتا اور بل کھاتی سڑک پر دُور تک کسی انسان کی صورت دکھائی نہ دیتی، لیکن قدرت اپنے پورے جوبن کے ساتھ جلوہ افروز نظر آئی، جو اور گندم کی بھرپور جوان فصلیں اور کینولا کے کھیت تھے جہاں اب پیلے رنگ کا ایک نشان بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا، ان مختلف کھیتوں سے سبز رنگ کے مختلف شیڈز بڑی خوبصورتی سے دھرتی کا حُسن بڑھا رہے تھے۔

بل کھاتی ان سڑکوں پر ہر تھوڑے فاصلے پر ایک انسانی بستی کا سراغ ملتا تھا۔ دُور سے لگتا کہ ایک نئی بستی آ رہی ہے لیکن بستی کے مکین کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ہاں کہیں کہیں کوئی قصبہ آتا تو وہاں انسانی وجود دیکھنے کی آرزو پوری کی جاسکتی تھی، لیکن ہمارے جی ٹی روڈ کی طرح لوگوں کی بھر مار کا منظر وارسا کے ریلوے اسٹیشن سے پہلے کہیں بھی دکھائی نہ دیا۔

درجنوں چھوٹی چھوٹی باتیں جو اس سفر کو خاص بنا رہی تھیں، ان میں کھیتوں میں مصروف مرد اور ان کے شانہ بشانہ کام کرنے والی خواتین تھیں، ویسے تو ہمارے ہاں بھی عورتیں مردوں کے ساتھ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں لیکن اس پیشے کو اختیار کرنے والی خواتین اب بھی اتنی زیادہ تعداد میں نظر نہیں آتیں۔

راستے میں کہیں کہیں پرانے وقتوں کے کنوئیں بھی دیکھنے کو ملے، جو اب بیتی صدیوں کی نشانی بن کر رہ گئے ہیں۔ کئی ایک جگہ پر بگلے کا ایک رشتہ دار جسے وائٹ اسٹروک کہا جاتا ہے، بڑی شان سے ایک گھونسلے پر براجمان پایا۔ ایک آدھ گاؤں میں تو مجھے لگا کہ شاید کسی کے چبوترے پر پرندے نے خود آ کر گھونسلہ بنایا ہوگا، لیکن ایک دو جگہ پر احساس ہوا کہ اس چبوترے اور گھونسلے کا پرندے کے لیے خاص اہتمام کیا گیا ہے۔

رات کو اپنے ہوٹل کے کمرے میں جا کر اس پرندے پر چھوٹی تحقیق کی تو اس کے پیچھے چھپی منطق سمجھ آ گئی، دراصل اس بگلے نما پرندے کی نسل یہاں کم یاب ہو رہی ہے، یہ پرندہ اصل میں زراعت میں اہم کردار کا حامل ہے۔ یہ پرندہ کھیتوں میں پائے جانے والے کئی قسم کے کیڑوں، مکوڑوں، حشرات کے علاوہ چوہوں کا دشمن تصور کیا جاتا ہے۔

دراصل یہ پرندہ گوشت خور ہے اور یہ فصل دوستی کا ایک مؤثر ہتھیار بن جاتا ہے۔ اس کی نسل باآسانی نہیں بڑھتی، یہ پرندہ ایک ہی مادہ کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے۔

اس کی افزائش نسل کے لیے سوئیڈن سمیت چند دیگر ممالک میں کام بھی کیا جا رہا ہے۔ ان علاقوں کی زرعی صورتحال دیکھ کر باآسانی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس پرندے کی دیکھ بھال کی واضح وجہ زراعت سے ہی منسلک ہے۔

چلیے اپنے کو سفر کو آگے بڑھاتے ہیں۔ مجھے اس راستے میں درجنوں نہیں بلامبالغہ سیکڑوں جگہ پر صلیب کے علامتی نشان گڑے دکھائی دیے۔ ان رنگ برنگی صلیبوں کے ڈیزائن اور سجاوٹ پر ایک الگ باب تک رقم کیا جا سکتا ہے۔ اکثر دیہاتوں کے موڑ پر بڑا کھمبا نما صلیب کا نشان دکھائی دیتا، کئی جگہ دُور سے ہی رنگ برنگی جھنڈیاں، ایک دائرے کی صورت میں صلیب کے گردا گرد باندھی دکھائی دیتیں۔ کہیں کہیں کھیتوں اور باغوں کے کنارے پر بھی صلیبیں ایستادہ ملتیں جیسے کسی کے کھیت کی نشاندہی کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ راستے پر چلتے گھر کے بیرونی احاطے کے ساتھ، کہیں گلی کے کونے پر، کہیں کسی چوک پر، یہ منفرد اور رنگ برنگی اور سجی دھجی مذہبی علامتیں ہر کچھ دیر بعد آپ کے سامنے آجاتی ہیں۔

واپسی کے راستے پر ہمارا ارادہ تھا کہ اس راستے میں موجود ایک ایک صلیب کی تصویر بنائی جائے اور وارسا اور کراکو کے اس راستے کی اس خوبی سے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ اب علامتیں تو جا بجا ایستادہ تھیں مگر ہم 40، 50 جگہوں پر ہی بریک لگا لگا کر تھک گئے۔

کئی ایک جگہ پر اسٹرابیری کے کھیتوں کے باہر اسٹرابیری فروش بھی نظر آئے، لیکن ان میں زیادہ تر لوگ عمر رسیدہ تھے، ایک جگہ پر رُک کر ہم نے ایک اسٹرابیری کے کھیت اور اس کی چُنائی کے مرحلے کو قریب سے دیکھا۔

کسان اور اس کی اہلیہ دونوں ہی ہماری زبان سے ناآشنا تھے، میں نے اسے اشارے سے کہا کہ وہ زمین پر لکھ کر بتادے کہ وہ کس طرح اسٹرابری فروخت کرے گا، لیکن یہ کسان دکاندار نہیں تھا بلکہ کھیت میں کام کرنے والا زمیندار تھا جو اسٹرابیری کو منڈی میں لے جا کر فروخت کرتا ہوگا۔

ہمارے پاس جو نوٹ تھا، اس کا بقایا اس کے پاس نہیں تھا اور جتنے سکے ہمارے پاس تھے وہ مطلوبہ رقم سے کم تھے۔ پھر ہم نے اسے کہا کہ تم آدھا پیکٹ دے دو، گوگل کی مدد سے آدھے کا پولش ترجمہ ڈھونڈا جو اس کو سمجھ آ گیا اور اس نے ہمارے پاس موجود سکوں کے برابر اسٹرابری ہمیں دے دیں۔

اس نے باقاعدہ طور پر تول کر اس کے پیسے لیے اور چُن چُن کر اچھی اچھی اسٹرابیریاں شاپر میں ڈالیں، اس کے اچھے رویے نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ اس نے اس لکڑی کے ڈبے سے سب سے بہترین، اور بڑی اسٹرابیریاں مجھے کیوں نکال کردی ہیں؟ جبکہ وہ اس ڈبے کو سیدھا سیدھا آدھا کرسکتا تھا، ایک خیال یہ بھی تھا کہ ممکن ہے بڑی اور رسیلی اسٹرابیریاں جلدی خراب ہوجاتی ہوں یا پھر وہ کھانے کے لیے بالکل تیار تھیں، اسی لیے اس نے ہمیں باقاعدہ چُن چُن کر یہ اسٹرابیریاں دی ہوں گی، بہرکیف کسان کی سادگی، ناپ تول اور اندازِ ملاقات نے مجھے کافی متاثر کیا۔

اس وقت یورپ میں بھی موسم گرم چل رہا ہے، کل کا درجہ حرارت 31 درجے سینٹی گریڈ بتایا گیا۔ یہاں کی اکثریت شاید اس گرمی عادی نہیں ہے، اس لیے بہت سے کسان اور کھیتوں میں کام کرنے والے مرد بغیر کسی قمیض کے کھیتی کرتے دکھائی دیے۔ ہمارا اسٹرابیری بیچنے والا اچھا کسان بھی اسی طرح کسی بنیان یا کُرتے کے بغیر ہی دکھائی دیا۔

تقریباً 300 کلومیٹر پر مشتمل دیہاتوں کے راستے جگہ جگہ جنگل کی صورت درختوں سے گھرے ہوئے نظر آئے۔ سڑک کے دونوں طرف میلوں کے فاصلے پر جدید طرز پر کاشت کیے گئے سیب کے باغات دکھائی دیے۔ میرے خیال کے مطابق سیب کے علاوہ ناشپاتی، بلو بیری، اور چیری کے درختوں کی بھی ایک بڑی تعداد ان باغات کا حصہ تھی۔

باغوں میں لگے ہوئے درختوں کی ترتیب جدید زرعی اصولوں سے آشنائی کی غمازی کرتی تھی۔ سڑکوں کے کنارے پڑے ہوئے ہل اور زرعی آلات بھی جدید زرعی طریقہ کار اپنائے جانے کی دلیل تھے۔ ایک دو جگہ پر چیری کے ایکڑ در ایکڑ باغ کے اوپر جالی دار نیٹ لگا دیکھ کر بے اختیار دل نے واہ واہ کیا۔

دیہات کے اندر جاتے ہوئے راستوں پر کئی ایک جگہ پر سڑک ٹوٹی ہوئی دیکھ کر پاکستان کے کسی گاؤں کی بھی یاد آتی تھی، لیکن باغوں کی قطاریں، فصلوں کی اٹھان اور ترتیب دیکھ کر اپنے دیہات کی تہی دامن کا احساس ہوتا تھا۔

کہیں کہیں ناہموار سڑک کا ٹکڑا یا پاکستانی طرز کا بجلی کا کھمبا بھی دل میں دیس کے خیال کی لہر سی پیدا کرتا۔ اس زرعی زمین پر پھیلی ہوئی کاشت شدہ فصلوں، باغوں، اور راستے میں ملنے والے سب کسانوں کی دھرتی سے جڑے رہنے کی مماثلت کے پیش نظر میں ان دیہاتوں کا پاکستانی دیہات سے تقابل کرتا چلا آیا۔

جتنی صلیبیں نظر آئیں، انہیں دربار سمجھ لیجیے یا مذہب سے جوڑنے والی رسی، بس انفرا اسٹرکچر کی برتری اور آبادی کا کم ہونا ہی ایسی 2 وجوہات تھیں جن میں یہ ہمارے دیہات سے کافی زیادہ مختلف دکھائی دیے، ورنہ وہی گندم، جو اور کینولا کی ہری بھری فصلیں، زمین، مویشی اور زرعی آلات تھے اور گوبر اور مٹی کی وہی مخصوص بو ان دیہاتوں کی فضا میں رچی بسی تھی۔

ان سڑکوں کی ناہمواریوں میں ایک اپنا پن سا لگا، کھیتوں سے جڑ جانے والے تعلق نے اجنبیت محسوس ہونے نہ دی، وگرنہ کہنے کو ہم وارسا اور کراکو کے درمیان 600 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرچکے تھے۔


رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔