نقطہ نظر

خطرناک جمہوریتیں!

ہندوستان، اسرائیل اور امریکا ویسے تو کئی دیگر شعبوں میں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں مگر ان میں ایک بات مساوی ہے
لکھاری سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر ہیں۔

دنیا کی کم از کم 3 ایسی جمہوریتیں جنہیں اپنے مضبوط جمہوری ریکارڈ کی بنیاد پر سراہا جاتا تھا وہ 2019ء میں خطرناک جمہوریتیں بن چکی ہیں۔

ہندوستان، اسرائیل اور امریکا ویسے تو کئی دیگر شعبوں میں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں مگر ان میں ایک بات مساوی ہے، ان تینوں ملکوں میں اندرونی سطح پر اپنے باسیوں اور بیرونی سطح پر اپنے پڑوسیوں اور دیگر ممالک کو خطرات کی زد میں رکھا ہوا ہے۔

اندرونی خطرات نے ان اداروں کو کمزور کردیا ہے جو ان ملکوں کو طویل جمہوری تسلسل بخشتے ہیں۔

بھارتی انتخابات میں واضح طور پر تضادات زبردست انداز میں نظر آئے۔ ایک طرف 60 کروڑ لوگوں کو بیلٹ تک رسائی اور ان کی پوشیدہ رائے کو یقینی بنایا گیا، نتائج کو سب نے تسلیم کیا، انتخابات کی غرض سے غیرمعمولی نقل و حمل کا عمل شیڈول کے مطابق پورا کیا گیا۔

مگر دوسری طرف، انتخابات میں فتح اس شخص کی ہوئی جو لوگوں کے درمیان خطرناک حد تک تقسیم پیدا کرنے کی وجہ بنا ہوا ہے۔ بھاری مینڈیٹ پر جتنی زیادہ خوشیاں منائی گئی ہیں اتنی ہی زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ اب تو انتخابی کامیابی نے گزشتہ مدت کی تمام زیادتیوں پر بھی پردہ ڈال دیا ہے۔ دراصل اکثریت پسندی خود کو تکثریت پسندی پر مسلط کردیتی ہے۔ بڑی مارجن سے ملنے والی جیت چھوٹے چھوٹے مگر اہم کازکچل دیتی ہے۔ مذہبی فاشزم نے ووٹوں کے ذریعے ایک سیکولر ریاست کو مغوی بنا دیا ہے۔

امریکا کی بات کریں تو وہاں انتخابی کامیابی پانے والے شخص کے تارکین وطن، مسلمانوں، لوگوں کے رنگ، خواتین، سیاسی مخالفین ڈیموکریٹس اور خبر رساں اداروں کے خلاف بیانات اور اقدامات نے فرقہ واریت کو جس قدر گہرا اور عوامی بیانیے کے معیار کو جتنا گرا دیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

ایک ایسا سربراہِ ریاست جو اپنی صدارت کے دوران 10 ہزار سے زائد بار غلط بیانیاں اور جھوٹ بول چکا ہے اسے لاکھوں ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ سفید فام پرستی وائٹ ہاؤس پر قابض ہوچکی ہے۔

انتخابات کے ذریعے اسرائیل میں اداریتی طور پر فلسطین مخالف امتیازی سلوک کو ایک بار پھر حمایت حاصل ہوچکی ہے۔ اس ملک میں مراعات میں غیر معمولی فرق کے ساتھ شہریوں کو مختلف درجہ بندیوں میں بانٹ کر نسلی عصبیت کو زندہ جاوید رکھا جاتا ہے۔ ہزاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے زیر قبضہ فلسطینی زمینوں کا اسرائیل سے الحاق کا سلسلہ جاری رہتا ہے جبکہ غزہ میں لاکھوں کی زندگیوں کا بد سے بدتر ہونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے انتخابات کے ذریعے لوگوں کو ان کے ہی وطن میں اجنبی بنانے اور تسلط پسندانہ پالیسیوں کو مزید مستحکم کیا جاتا ہے۔

بیرونی تناظر میں دیکھیں تو یہ طاقتور جمہوریتیں اپنے جارحانہ رویوں میں شدت کے اعتبار سے کافی یکساں نظر آتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ہندوستان کا غیر متناسب سائیز اسے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوششوں میں کافی مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کے جھگڑالوپن کو اکلوتی حیثیت میں چیلنج کرنے والے پاکستان کے سوائے یہ ملک اپنے تمام ہی پڑسیوں کو متعدد باردھونس جما کر ڈراتا دھمکاتا رہا ہے۔ بھوٹان اپنے خارجی تعلقات کے فیصلے بھارتی منظوری کے بغیر نہیں کرپاتا۔ حتیٰ کہ بھارت ہندو اکثریت رکھنے والے نیپال کو بھی وقتاً فوقتاً ضروری اشیاء کی فراہمی بند کرتا رہا ہے۔ بنگلہ دیش جو ہندوستان کو اپنی تخلیق میں مددگار قرار دیتا ہے، اسے بھی اکثر دریا کے پانیوں کے جائز حق سے محروم رکھا جاتا ہے اور دیگر طریقوں سے جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

سری لنکا کے لسانی اور سیاسی تنازعات میں بھارت کا کردار ہمیشہ سے دیکھنے کو ملا ہے۔ بھارت ایک بہت ہی چھوٹے ملک مالدیپ سے بھی اپنی نظریں نہیں چُراتا۔ اگرچہ افغانستان کی سرحد بھارت سے تو نہیں ملتی مگر اس کے باوجود یہ بھارت کی توجہ کا اہم مرکز ہے کیونکہ اس طرح پاکستان کا گھیراؤ کرنے میں تھوڑی بہت مدد ملتی ہے۔ صرف اور صرف ہندوستان کے ضدی پن کی وجہ سے 2016 سے سارک پاکستان میں طے شدہ کانفرنس کا انعقاد نہیں کرپائی ہے۔ ان تمام چھوٹے چھوٹے ملکوں کے رہنما اور سینئر افسران آف دی ریکارڈ اپنے بڑے پڑوسی کی دخل اندازی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کی بے تناسبی مغربی ایشیا تک جا پہنچتی ہے، مگر وہاں اعداد کی اُلٹ پھیر ہے۔ 90 لاکھ نفوس والا جمہوری اسرائیل 22 ملکوں کے 42 کروڑ سے زائد زیادہ تر غیر جمہوری عرب باشندوں کو ڈراتا دھمکاتا ہے۔ چچا سیم کی اسرائیل کو بااختیار بنانے میں غیر معمولی اور سمجھ سے بالاتر حمایت ہی اس اقلیت کے اکثریت پر استحصال کی ایک بڑی (مگر واحد نہیں) وجہ ہے۔

عرب ممالک کی اندرونی اصلاحات لانے، اندرونی تنازعات اور بیرونی مداخلت کو روکنے میں ناکامی ہی خطے میں جاری المناک صورتحال کی راہ ہموار کرتی ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں گرما گرمی کی صورتحال جاری رکھنے میں مرکزی کردار غیر تسلیم شدہ اسرائیلی جوہری ہتھیاروں کے ساتھ اس اسرائیلی فوج گردی کا ہے جسے ہر بار انتخابات کے ذریعے جائز ٹھہرایا جاتا ہے۔

حالیہ اندازوں کے مطابق پوری دنیا میں 800 فوجی مراکز قائم ہیں۔ امریکا دعوی کرتا ہے کہ اس قدر وسیع پیمانے پر فوجی تعیناتی عالمی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے کی گئی ہے، مگر اس قسم کی فوجی موجودگی ہی اکثر تباہ کن مداخلت کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ان کے اس پھیلاؤ سے نئے تنازعات کو ہوا ملتی ہے، جن کے خونی نتائج امریکا سے ہزاروں میل دور نشانہ بننے والے ممالک کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ مگر حد تو یہ ہے کہ امریکا نے اپنے چھوٹے پڑوسی ممالک کو بھی غیرقانونی ہجرت کی سزا کے طور پر انہتائی ضروری امداد سے محروم کر رکھا ہے۔ جبکہ امن کو لاحق ایران کے تصوراتی خطرے کو تناؤ کی شدت بڑھانے کے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ان خطرناک جمہوریتوں میں 2 کافی اہم باتیں یکساں ہیں، یہ عالمی رائے پر فوراً بے رحمانہ انداز میں بڑی ہی رکھائی کے ساتھ اپنا رد عمل دیتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر بدترین بھارتی قبضہ ہو، اسرائیل کا فلسطین کا گلہ گھونٹنا ہو یا پھر امریکا کا دیگر ممالک کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کا احترام نہ کرنا ہو، یہ تینوں ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں اور روایات کی کھلے عام دھجیاں اڑاتے ہیں۔

ایک اور حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ان تنوں ممالک کے سربراہان کو غیرقانونی کاموں میں شریکِ جرم رہنے کے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔

بطور وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی نے مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔ نیتن یاہو کے خلاف کرپشن الزامات پرعدالتی کارروائی شروع ہونے کو ہے۔ ٹرمپ کو مواخذے کی تحریک کے امکان کا ڈر ستا رہا ہے۔

اگرچہ جمہوریت کو مثالی نظام قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ اپنے اندر بھیانک صورتحال جنم دینے کی پریشان کن صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اب جبکہ یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ایسے میں جمہوری نظاموں کو چیک اینڈ بیلنس کے اعتبار سے ایسے معنی خیز تخلیقی طریقے درکار ہیں جو تباہ کن رُجحانات کو انتخابی جائز حیثیت حاصل کرنے سے روک سکتا ہو۔

یہ مضمون 19 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔


ترجمہ: ایاز احمد لغاری

جاوید جبار

لکھاری سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔