ٹی وی پر پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھ کر ڈپریشن ہوتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ ٹی وی پر پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھ کر انہیں ڈپریشن ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں منعقد تقریب میں ماڈل کرمنل ٹرائل کورٹس ( ایم سی ٹی سی) کے جوڈیشل افسران سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ماڈل کورٹس فوری انصاف فراہم کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ماڈل کورٹس کے چیتے جج چاہیئں، آج ہمیں مزید 57 جج ملے ہیں، ماڈل کورٹس کا 5 ہزار 8 سو مقدمات کو 48 روز میں نمٹانا بڑی کاوش ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ، ماڈل کورٹس اور فیملی کورٹس کو ایک ساتھ لانچ کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے 6 اضلاع میں کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں ہے، فیصلہ کیا ہے کہ پہلے فوجداری مقدمات کو ختم کرکے معاشرے کو بہتر کیا جائے۔
مزید پڑھیں: جسٹس آصف سعید کھوسہ کو چیف جسٹس بنانے کی منظوری
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ججز کی محنت سے حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں، انشااللہ ہر ماہ ہر ضلع میں فوجداری مقدمات میں ایک جج کا اضافہ کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ ماہ مزید 10 اضلاع ماڈل کورٹس کے دائرہ کار میں شامل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ فوری انصاف اولین ترجیح ہے، مقدمات جلد نہ نمٹنے کی وجہ سے لوگ کئی سالوں سے جیلوں میں قید ہیں۔
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ گھر کا واحد کفیل جیل میں ہو تو اس کی زوجہ کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا، جیلوں میں قید افراد کے بچے بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا معاشرے نے کبھی ایسی خواتین اور بچوں کا سوچا ہے؟ چند ماہ خاندان والے ساتھ دیتے ہیں اس کے بعد کوئی نہیں پوچھتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خواتین کو لوگوں کے گھروں میں کام پر لگایا جاتا ہے یا جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے، گھروں میں کام کے دوران ایسی خواتین پر تشدد بھی ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے ماحول میں بڑے ہونے والے بچے جرائم پیشہ بنتے ہیں۔
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جرائم کے خاتمے کے لیے نظام بہتر کررہے ہیں، صنفی تشدد کے حوالے سے 116 عدالتیں قائم کررہے ہیں، بچوں پر تشدد کے حوالے سے 2 عدالتیں قائم کی جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے منصب سنبھال لیا
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ آن لائن سماعت کرنے والی دنیا کی پہلی عدالت ہے، آن لائن سماعت پر تمام فریقین خوش ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جولائی کے آخر میں کوئٹہ میں بھی ای کورٹ کا آغاز ہوجائے گا۔
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بدقسمتی سے کسی ادارے سے اچھی خبریں نہیں آرہیں، ہمیں پریشان کن خبریں سننی پڑتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے معیشت آئی سی یو میں ہے یا آئی سی یو سے باہر آگئی ہے، جو اچھی خبر نہیں، کون معیشت کی خرابی کا ذمہ دار ہے یہ الگ بات ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جمہوریت پر فخر کرتے ہیں لیکن ٹی وی لگائیں تو پارلیمان میں شور شرابا ہوتا ہے، ٹی وی پر پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھ کر ڈپریشن ہوتا ہے، قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو بولنے نہیں دیا جاتا۔
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس سے بچاؤ کے لیے چینل تبدیل کرتے ہیں، ورلڈ کپ دیکھیں تو وہاں سے بھی اچھی خبریں نہیں آرہیں۔
مزید پڑھیں: دہشتگردی کی تعریف کے تعین کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو بین الاقوامی سطح پر بھی پڑوسی ملک افغانستان میں جنگ چل رہی ہے، ایران پر بھی جنگ کے سائے منڈلارہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے حالات میں ہمارے معاشرے کا صرف ایک شعبہ ہے جہاں سے اچھی خبر آرہی ہے اور وہ عدلیہ ہے۔
آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ شواہد اور گواہوں کا سچا ہونا بھی ایک مسئلہ تھا، بدقسمتی سے 1951 میں لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے میں کہا لوگ حلف پر جھوٹ بولتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں لوگوں کو جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی، 90 کی دہائی میں جسٹس افضل ضلہ نے اس فیصلے کی حوصلہ شکنی کی، اللہ نے مجھے فیصلہ لکھنے کی توفیق دی کہ جھوٹے شخص کی گواہی تسلیم نہیں ہوگی۔