یہ سچ ہے کہ ورثے میں ملنے والے مالی بے ترتیبی کو ٹھیک کرنا پی ٹی آئی حکومت کے لیے ایک انتہائی مشکل چیلنج ہے اور اس کام کے لیے ٹھوس اورغیر مقبول اصلاحاتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مگر عمران خان کی مخالفین سے جارحانہ انداز میں پیش آنے کی سوچ نے حکومت کے لیے یہ کام مشکل ترین بنا دیا ہے۔
بجٹ میں متعارف کیے جانے والے ان مشکل مگر ضروری اقدامات کے لیے حکومت کو سیاسی درجہ حرارت زیادہ کرنے کے بجائے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ بے شک معیشت میں بحالی کے چند آثار شاید دکھائی رہے ہوں مگرمسلسل سیاسی عدم استحکام سے بحالی کا عمل یہ متاثر ہوسکتا ہے۔
حکومت پارلیمنٹ کو معاملات سے لاتعلق بناتے ہوئے غیر منتخب اداروں پر انحصارکرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ٹیکنوکریٹس کو چند شعبوں میں ماہرانہ رائے کے لیے تو استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن انہیں فیصلہ سازی پر غالب نہ ہونے دیا جائے اور نہ انہیں حکومت چلانے کی اجازت ہونی چاہیے۔
چند غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق حکومت 'ایکنامک سیکیورٹی کونسل' کو قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ جس میں اعلیٰ سیکیورٹی قیادت شامل ہوگی۔ اس قسم کے اقدام سے سویلین خودمختاری کمزور ہوسکتی ہے اور فوجی کردار کو باضابطہ طور پر وسعت مل سکتی ہے، جبکہ فوج کا سایہ پہلے ہی پی ٹی آئی حکومت کی میں گہرا ہوا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے انٹیلجنس ادارے کی قیادت میں حالیہ تبدیلی نے بھی کئی لوگوں کو حیران کردیا ہے۔ حزب اختلاف میں ابھرتے اتحاد کے پیش نظر یہ اقدام کافی زیادہ اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ تشویش کا اظہار ممکن ہے کہ حد سے زیادہ کیا گیا ہو لیکن یہاں تاثر کی کافی اہمیت ہے۔
اقتصادی اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے لازم ملزوم ہے۔ اقتصادی بحالی کے لیے سویلین جمہوری عمل کی مضبوطی اولین شرط ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تناؤ میں کمی لانا ہی حکومت کے مفاد میں زیادہ بہتر ہے۔ جارحانہ طریقہ کار حکومت کو مزید نقصان پہنچائے گا۔ پارلیمنٹ کے تقدس اور اس کے نمائندہ ادارے کے طور پر کردار کی بحالی بہت ضروری ہے۔
یہ مضمون 19 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔