اپوزیشن رہنماؤں نے گرفتار اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا—اسکرین شاٹ
اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری پر قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ ہمارے قائد نواز شریف قید میں ہیں، آصف زرداری کو گرفتار کیا ہے جبکہ خواجہ سعد رفیق بھی گرفتار ہیں لیکن یہ پوری اپوزیشن کو گرفتار کرلیں، جتنے ظلم ڈھانے ہیں ڈھادیں ہم اس عوام دشمن بجٹ کی ڈٹ کر مخالفت کریں گے اور عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اربوں ڈالر آئیں گے کہاں ہیں وہ اربوں ڈالر، کوئی پاگل ہے جو اس نااہل حکومت کو ڈالر دیتا جبکہ ریونیو سے متعلق عمران خان نے کنٹینر پر کہا تھا کہ اگر ٹیکس پورا نہ ہو، لوگ ٹیکس نہ دیں تو اس وقت کا وزیر اعظم چور ہوتا ہے، آج تو ان کے اپنے ہدف میں 500 ارب روپے کا فرق ہوگیا۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں احتجاج، آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ
اپنے خطاب میں انکا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے مریضوں، بیوہ یتیم، کسان کی پرواہ نہیں کی اور بجٹ میں اسٹاک ایکسچینج کے سٹہ بازوں کے لیے 20 ارب روپے جھونک دیے، دعا ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے اور آئی ایم ایف کے مشوروں سے پرہیز کریں۔
بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا انہوں نے اپنی روش تبدیل نہیں کی تو یہ ملک آگے نہیں بڑھے گا خدانخواستہ ملک میں خونی انقلاب آسکتا ہے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے، اگر حالات اور بگڑ گئے تو یہ بھاگنے کی کوشش کریں گے لیکن ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے اور ان سے حساب لیں گے۔
اس موقع پر انہوں نے مطالبہ عوام دشمن، غریب مار بجٹ، یتیم و بیوہ دشمن بجٹ فی الفور واپس لیا جائے اور دوبارہ عوامی خواہشات کی عکاسی کرتا بجٹ پیش کیا جائے۔
اپنے مطالبات میں انہوں نے کہا کہ نئے بجٹ میں مزدور کی کم از کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ کی جائے، گریڈ 16تک کےملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے اور ایک لاکھ روپے تک ماہانہ کمانے والوں کو ٹیکس ریٹ میں چھوٹ دی جائے۔
شہباز شریف نے کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو 31 مئی 2018 کی سطح پر واپس لایا جائے، گھی و خوردنی تیل کی قیمتوں پر عائد کیا گیا اضافی ٹیکس واپس لیا جائے، صحت و تعلیم کے بجٹ میں زائد رقوم مختص کی جائے بلکہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کی جائے اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کے لیے مفت ادویات بحال کی جائیں۔
اسی طرح نوجوانوں کے لیے تعلیمی وظائف بحال کیے جائیں، اس کے علاوہ ہمارے دور میں چین کے ساتھ مل کر بنائی گئی ٹیکنکل یونیورسٹی کے دائرے کو پورے ملک تک پھیلایا جائے جبکہ زیرو ریٹڈ صنعتوں کے ختم کرنے کے معاملے کا نوٹس لیا جائے۔
بجٹ تجاویز پر انہوں نے کہا کہ عمران خان نے بلند و بانگ دعووں کے برعکس ہمارے دور میں تعلیم ک 97 ارب روپے کے بجٹ میں 20 ارب روپے کم کردیے اور 77 ارب روپے مختص کیے ہیں، اسی طرح صحت کے شعبے کا وفاقی بجٹ 13 ارب سے کم کرکے 11 ارب روپے کردیا گیا، اس سب کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ یہ یوٹرن کے ماسٹر ہیں اور یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
’تحریک انصاف ہمارے منصوبوں پر تختیاں لگارہی ہے‘
صوبائی فنڈز کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کا احتجاج رہا کہ وفاق سے فنڈ نہیں مل رہے جبکہ وفاقی حکومت نے 10 ماہ میں جو ٹیکس وصولی کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہیں بھی نئے منصوبے کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی۔
انہوں نےکہا کہ میں ان لوگوں کو اسپیکر کے توسط سے ایک گولڈ میڈل دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے دور کے منصوبوں پر تختیاں اکھاڑ کر یہ لوگ اپنی تختیاں لگانے کے لیے دست و گریبان ہیں، منصوبے تو یہ بنا نہیں سکے تو اب یہ قوم کو اسی طرح اپنی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خود حیرانی ہوئی کہ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت ہمیشہ ڈھنڈورا پیٹتی تھی کہ پی ٹی آئی پاکستان میں سوشل سیکٹر یعنی تعلیم اور علاج کے معاملے میں چیمپئن ہے، عمران خان سے لے کر پوری پی ٹی آئی کہتی تھی کہ میگا پروجیکٹس کک بیکس، کمیشن اور کرپشن کے لیے بنائے جاتے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت تعلیم اور صحت پر توجہ نہیں دیتی لیکن خود ان کے طرز عمل نے کئی سوالات کو جنم دے دیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے میگا منصوبے کک بیکس کے لیے بنائے تو بتایا جائے کہ انہوں نے اس بجٹ میں 2 ایل این جی منصوبوں کو بیچنے کا پروگرام کیوں رکھا ہے، ہمارے دور کے بنائے ہوئے 2 بجلی کے منصوبوں کو انہوں نے نجکاری کے لیے سرفہرست رکھا ہے، اگر کسی منصوبے میں کک بیکس ہوں تو عمران خان ان کی تحقیق کریں گے یا بیچنے کے لیے ڈال دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ’حکومتی غلطیوں کی وجہ سے ہم دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے‘
تنقید کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں تعلیم اور ہسپتالوں سے متعلق انقلاب کا بتایا جاتا تھا لیکن 2013 سے 2018 تک ایک نئی یونیورسٹی اور ہسپتال نہیں بنایا۔
اس پر اسپیکر اسد قیصر نے شہباز شریف کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ آپ کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ خیبرپختونخوا میں 7 یونیورسٹیاں بنائیں گئیں جبکہ میں نے اپنے ضلع صوابی میں 2 یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالج و ہسپتال بنایا۔
’قرضوں کے الزام پر دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کرنا چاہتا ہوں‘
قرضوں سے متعلق بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ہم پر یہ الزام لگایا گیا کہ ہم نے بے پناہ قرضے لیے ہیں، آج ان قرضوں کے بوجھ کا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہتا ہوں تاکہ حقیقت پوری قوم کے سامنے آجائے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے اعداد و شمار کے مطابق ہم نے اپنے دور 2013 سے 2018 تک 10 ہزار 600 ارب روپے قرض لیا، 31 مئی 2018 کو یہ قرض اور گزشتہ ادوار کے قرضوں کو شامل کرکے قرضوں کا مجموعی حجم 24 ہزار 952 ارب روپے تھا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کیا کارکردگی دکھائی اور انہوں نے کتنا قرض لیا، ہم نے جو قرض لیے اس میں تاریخی کام ہوئے، جس میں 11 ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے، گوادر بندرگاہ کی تعمیر، 1700 کلو میٹر موٹروے، 8 ہزار کلومیٹر شاہراہیں، ایل این جی ٹرمنلز، ملکی تاریخ کا سب سے بڑا 2200 میگا واٹ کا ایٹامک بجلی گھر کی بنیاد، بجلی ترسیل کی لائن، اورنج لائن ٹرین منصوبہ اور سندھ کی حکومت کے ساتھ مل کر تھرکول پاور و دیگر منصوبے شامل ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے الزام لگایا کہ کیا کہ نیب اور تحریک انصاف کی حکومت میں چولی دامن کا ساتھ ہے، یہ کمیشن بنا ہے اس میں بڑے شوق سے قرضوں کی تفصیل لے کر جائیں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی جائے گی لیکن اس کی شروعات بی آر ٹی پشاور سے ہونی چاہیے۔
طویل خطاب میں انہوں نے تحریک انصاف حکومت کی جانب سے لیے گئے قرضوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ عمران خان نیازی کہتے تھے کہ کسی ملک سے قرض لینا قوم کی کمزوری کی نشانی ہے، بکھاری پن قوم کی عزت و غیرت پر سمجھوتہ ہے، وہ ٹھیک کہتے تھے لیکن ہوا کیا انہوں نے ان 10 ماہ میں 5 ہزار ارب روپے کے قرض لے لیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 5 سال میں جتنے قرضے لیے انہوں نے اس کے نصف صرف 10 ماہ میں لے لیے، اگر انہیں ایک سال مل گیا تو یہ ہمارے دور سے زائد قرض لے چکے ہوں گے۔
اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان نے 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا جبکہ انہوں نے ہمارے منشور سے یہ پروگرام چرایا تھا لیکن ان کے دور 11 ماہ میں گھر تو دور ایک اینٹ بھی نہیں لگائی اور اس بجٹ میں اس منصوبے کے لیے کچھ نہیں رکھا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت یومیہ 19 ارب روپے قرض لے رہی ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہمیں قرضوں کے الزام لگایا جاتے ہم اس کے لیے تیار ہیں لیکن یہ احتساب نہیں بلکہ انتقام ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔
دوران خطاب انہوں نے تحریک انصاف پر ووٹ چوری کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اگر جعلی ووٹوں سے حکومت نہیں بنتی اور ہمیں موقع ملتا تو غریب کے لیے گھر بناتے اور قوم کو بتاتے کہ ہم نے وعدہ پورا کیا جبکہ تحریک انصاف کے وعدے آج ایک سوالیہ نشان ہیں۔
اس دوران اسپیکر اسمبلی نے شہباز شریف کو اپنی تقریر سمیٹنے کا کہا تو شہباز شریف نے کہا کہ ابھی تو میں نے تقریر شروع کی ہے، جس پر ایوان میں اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے قہقہے بلند ہوگئے۔
’بی آر ٹی کو بگیسٹ رابری ان ٹرانسپورٹ سسٹم قرار دے دیا‘
میٹرو بس پر تنقید کا جواب اور بی آر ٹی پشاور پر تنقید کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان نیازی کہتے تھے کہ یہ جنگلہ بس 70 ارب روپے میں بنا ہے اور اس میں بدترین کرپشن ہوئی ہے اور میں پشاور میں بی آر ٹی اور میٹرو بس کبھی نہیں بناؤں گا چاہے مجھے وفاقی حکومت گرانٹ ہی کیوں نہ دیتے بلکہ یہ پیسا یونیورسٹیوں اور صحت پر لگاؤ گا۔
انہوں نے کہا کہ پھر 2016، 2017 میں بی آر ٹی پشاور کا اعلان ہوگیا اور قرضہ جات کی تحقیقات کے لیے جو کمیشن بنایا ہے اس میں قرضہ جات کی پہلی کھیپ خیبرپختونخوا کی جانی چاہیے کیونکہ بی آر ٹی کے اعلان کے بعد وفاقی حکومت کو رد کرکے ایشیائی ترقیاتی بینک سے اربوں روپے کا قرضہ لیا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پیسے اور وہ گرانٹ دینے کو تیار تھی جو صوبوں کو دی جاتی ہے تو پھر اس کو مسترد کرکے ایشیائی ترقیاتی بینک اور فرانسیسی حکومت سے قرض لیے، لہٰذا اس معاملے کو کمیشن کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔
شہباز شریف نے کہا کہ آج یہ بی آر ٹی کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے، 38 ارب سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ ایک کھرب تک پہنچا جاتا ہے، صوبائی حکومت کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ میں تکنیکی طور پر غلطیاں ہوئی ہیں اور اس میں کرپشن ہوئی ہے جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ بلیک لسٹڈ کنٹریکٹر کو اس کا ٹھیکا کیوں دیا۔
اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میٹرو لاہور، ملتان، راولپنڈی و اسلام آباد کے تقریباً 70 کلو میٹر کے منصوبے 100 ارب میں جبکہ اکیلا پشاور میٹرو 100 ارب روپے میں ہوگیا ہے یہ تحریک انصاف کی کارکردگی ہے۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہم نے کیا ہوتا تو نیب ہمارے خلاف ایک اور ریفرنس بنا کر بھیج چکا ہوتا، اس معاملے میں اب نیب جانے اس کا کام جانے، ساتھ ہی انہوں نے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم کو بگیسٹ رابری ان ٹرانسپورٹ سسٹم قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ پشاور کے لوگ دعا کرتے ہیں کہ بی آر ٹی منصوبے سے جان چھڑا کیونکہ اس سے ان کے کاروبار ختم ہوگئے اور لوگوں کو وہاں سے جانے میں مشکلات ہوتی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کارکردگی
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں عوام کے اصلی ووٹوں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت منتخب ہوئی تو پہلا چیلنج بجلی کی لوڈشیڈنگ تھی جو جنرل مشرف کے دور سے چلی آرہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے کچھ مشینیں رکھ کر فیتا کاٹ کر کہا کہ میں نے بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا جبکہ قوم جانتی تھی کہ سنگ بنیاد دور کی بات ہے بلکہ اس کی زمین کے لیے ایک دمڑی تک مہیا نہیں کی گئی تھی، صرف لوگوں کو ورغلانے اور دھوکے کے ساتھ اس ڈیم کا سنگ بنیاد رکھنے کی کوشش کی لیکن عوام نے انتخابات نے انہیں مسترد کردیا جبکہ اسی طرح پاکستان کے لیے ضروری منصوبوں پر بھی کوئی کام نہیں ہوا۔
شہباز شریف نے کہا کہ جب ہمیں ذمہ داری سونپی گئی تو بجلی کا بحران ایک چیلنج تھا اور میں نے جذبات میں آکر کہا کہ اللہ نے ہمیں موقع دیا تو ہم 6 ماہ میں بجلی کا مسئلہ ختم کردیں گے کیونکہ یہ میری خواہش تھی، تاہم اللہ نے ہماری مدد کی لیکن پی ٹی آئی کی اپوزیشن نے بدترین افراتفری اور سازش کا جال بنا، اس کی گواہی پوری قوم دے گی کہ کس طرح 7 مہینے ڈی چوک پر افراتفری کا ماحول رہا اور ملکی معیشت کو منفی ہتھکنڈوں سے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ستمبر 2014 میں چینی صدر پاکستان آرہے تھے اور حکومت نے کوشش کی کہ ان کا دورہ ہوجائے اور پی ٹی آئی کی اپوزیشن کے تمام سازشوں، افراتفری، منفی ہتھکنڈوں کے باوجود درخواست کی گئی کہ 3 دن کے لیے ڈی چوک سے اٹھ جائیں لیکن بات نہیں مانی گئی اور چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوگیا۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ چینی صدر کے دورے کو ملتوی کروانے کا پی ٹی آئی کا فیصلہ ملک دشمنی کے مترادف تھا یہ وہ وجوہات تھیں جس کی وجہ سے ہمیں یہ چیلنجز قبول کرنے پڑے اور پھر چینی صدر کا دورہ 7 ماہ کی تاخٰیر سے ہوا۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا میں پاکستان کے چند دوست ہیں، سعودی عرب، ترکی، چین ہمارے بہترین دوستوں میں شامل ہوتے ہیں لیکن اس دور میں جب دہشت گردی، افراتفری اور بجلی کے بحران نے پنجے گاڑ رکھے تھے اس وقت چین ہماری مدد کو آیا اور نواز شریف کے ساتھ مل کر پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا معاہدہ کیا اور اس کے ذریعے 60 ارب ڈالر پاکستان کے حوالے کیے اور ملک میں منصوبے بنائے گئے۔
گرفتار اراکین کی حاضری یقینی بنانا اسپیکر کی ذمہ داری
اس سے قبل شہباز شریف نے کہا کہ سابق صدر اور لاڑکانہ سے منتخب آصف زرداری، لاہور کے ایم این اے خواجہ سعد رفیق، محسن داوڑ اور دیگر گرفتار 4 رکن اسمبلی اس ایوان کے معزز رکن ہیں، لہٰذا ان کی ایوان میں موجودگی یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اراکین اپنے علاقوں سے لاکھوں ووٹ لے کر ان کی ترجمانی کے لیے ایوان میں آئے ہیں، بجٹ سیشن وہ موقع ہے کہ جب ان تمام اراکین کی موجودگی ضروری ہے اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کی موجودگی یقینی بنائیں۔
شہباز شریف کو وزیر توانائی کا جواب
شہباز شریف کے طویل خطاب پر حکومتی رکن بھی پیچھے نہ رہے اور وزیر توانائی عمر ایوب نے بھی قومی اسمبلی میں طویل خطاب کیا۔
وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف صوبائی و قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے، وزیر اعلیٰ بھی رہے لیکن جو انہوں نے اپنی پارٹی مسلم لیگ(ن) پر خود کش حملہ کیا اس کی مجھے توقع نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ منظور ہوا تھا تو تحریک انصاف کی حکومت اسے پورا کرکے دکھائے گی، تاہم اس وقت ہماری قوم پر مجموعی طور پر 30 ہزار ارب روپے قرضہ ادا کرنا ہے لیکن ہم 55 سو ارب محصولات کا ہدف پورا کرکے دکھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ستمبر 2018 تک ملک پر 30 ہزار 8 سو 46 ارب روپے قرضہ چڑھ چکا تھا اور یہ قرضہ جون 2008 میں 6 ہزار 6 سو 90 ارب روپے تھا تاہم گزشتہ 10 سال میں 24 ہزار ارب روپے قرض لیا گیا، تاہم ہم اس سال پر 3 ہزار ارب روپے صرف قرضوں کے سود کی مد میں ادا کریں گے۔
شہباز شریف کی تقریر کے جواب میں عمر ایوب نے کہا کہ مہنگائی کے حوالے سے بات کی جاتی ہے 2013 سے 2018 تک نوٹ چھپائی میں 100 فیصد اضافہ ہوا جبکہ کرنسی ان سرکولیشن میں 101 فیصد اضافہ ہوا، ماضی کی حکومت نے ملک کو مصنوعی طریقے سے چلایا جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں، ملکی نظام بہتر کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں کیونکہ ماضی میں ملکی معیشت کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ افراط زر کی شرح میں اضافہ اس لیے ہوا کہ حکومت نے قرضہ لیا، گزشتہ 10 برس میں برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ کمی آئی، تیل کی قیمت تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آئی ہوئی تھی تو برآمدات کو نہیں بڑھایا گیا کیونکہ اس وقت کی حکومت ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے سہارا دے رہی تھی۔
اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کی گزشتہ حکومت کے آخری وزیرخزانہ مفتاح اسمٰعیل نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مسلم لیگ(ن) کی غیر ملکی زرمبادلہ کی پالیسی غلط تھی، روپے کو مصنوعی طور پر سہارا دینے کے لیے 24 ارب ڈالر روپے خرچ کیے گئے، اگر یہ کسی بھٹی میں لگ جاتے تو ملک کو کوئی تو فائدہ ہوتا۔
اپوزیشن جماعت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شکر ہے ابھی تک مسلم لیگ(ن) نے نظریہ پاکستان کا کریڈٹ نہیں لیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے وینزویلا کی بات کی جو کہ جنوبی امریکا میں واقع ہے اور ایسا ملک کے جہاں تیل کے ذخائر موجود ہیں لیکن اس لیے ترقی نہیں کرسکا کیونکہ لیڈرشپ کا فقدان ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا سی پیک سے متعلق تاریخی حقیقت بتادوں کہ یہ قراقرم ہائی وے بننے کے وقت سی پیک کی بنیاد رکھی گئی، ہیوی مکینیکل کمپلیس، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس، ایروناٹیکل کمپلیکس یہ منصوبے اس وقت شروع کیے گئے اور آج قوم اس کا فائدہ اٹھارہی ہے۔
عمر ایوب نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے بات کی جاتی ہے، پیپلزپارٹی کی حکومت 7 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گئی، مسلم لیگ(ن) کی حکومت 3 مرتبہ گئی، یہ جو شرائط مان کر آئے اور پھر پاکستان کا جو حشر کیا گیا وہ سب بھول گئے۔
ساتھ ہی انہوں نے قرضوں کے بارے میں بتایا کہ 1998 میں بیرون ملک قرضے 13 ارب ڈالر تھے، 1999 میں 39 ارب ڈالر، 2008 میں 41 ارب ڈالر اور 2018 میں یہ قرضے 96 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جبکہ اس وقت ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر ہے، تاہم آہستہ آہستہ ان چیزوں کو تبدیل کیا جارہا ہے، 2020 کے آخر تک گردشی قرضے کا بہاؤ صفر کردیں گے۔
وفاقی وزیر توانائی نے مسلم لیگ (ن) کے سستی بجلی کے منصوبوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ن لیگ کے آخری سال میں پاور سیکٹر میں 450 ارب کا خسارہ کیا۔
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا سے متعلق بات کی گئی، کے پی میں ہائیڈل پاور کے 250 منصوبے ہیں اور 500 ابھی زیر غورہیں، پاکستان میں 2018 میں جتنی لوڈشیڈنگ برداشت کی اس کی مثال نہیں ملتی، تاہم اب 80 فیصد فیڈزر کو لوڈشیڈنگ فری کیا ہے۔
بلاول بھٹو کا گرفتار اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ
قبل ازیں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ آصف زرداری اس ملک کے صدر رہے ہیں، انہوں نے 11 سال جیل میں گزارے لیکن وہ ہر کیس میں بری ہوئے اور ہم آج بھی ہر فورم پر لڑ رہے ہیں اور آصف زرداری بری ہوں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نوابشاہ، لاہور، جنوبی و شمالی وزیرستان کے عوام کو کیسے اس بجٹ عمل سے باہر رکھ سکتے ہیں، جو سب چل رہا ہے وہ جمہوریت اور اس ایوان کی توہین ہے، افسوس کے ساتھ یہ محسوس ہورہا ہے کہ اسپیکر کی کرسی سے جو وعدے کیے گئے ہیں وہ پورے نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ میں پھر مطالبہ کرتا ہوں کہ ہمارا حق اور ایوان کی روایت پورا کرتے ہوئے آصف زرداری اور دیگر گرفتار اراکین قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں۔