پاکستان

اسحٰق ڈار کی برطانیہ سے واپسی کیلئے معاہدہ ہوگیا ہے، شہزاد اکبر

دستاویزات پر دستخط ہونے کے بعد انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور پھر پاکستان کےحوالے کیا جائے گا، معاون خصوصی
|

وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا ہے کہ برطانوی حکام سے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی واپسی کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوگئے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ 'اس حوالے سے ایک معاہدہ ہوگیا ہے تاہم حوالگی کی دستاویزات پر دستخط ہونا باقی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دستاویزات پر دستخط ہونے کے بعد انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا جس کے بعد انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے گا'۔

انہوں نے بتایا کہ یہ تمام کارروائی جلد مکمل کرلی جائے گا۔

واضح رہے کہ 14 جون کو وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا تھا کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، حسن نواز اور حسین نواز کی حوالگی کے لیے کارروائی کا جلد آغاز ہوگا۔

انہوں نے کہا تھا کہ گذشتہ 2 ہفتوں کے دوران، برطانیہ کے محکمہ داخلہ کے ساتھ اسحٰق ڈار، حسن اور حسین نواز کی واپسی کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔

فواد چوہدری کے مطابق اس سلسلے میں برطانوی حکومت کی جانب سے مثبت ردِ عمل موصول ہوا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 2017 میں اسحٰق ڈار کو اشتہاری قرار دیا تھا جب وہ مبینہ طور پر علاج کے لیے لندن میں موجود تھے اور سماعت کے دوران پیش نہیں ہوئے تھے۔

ان کی غیر حاضری کی درخواست کو عدالت نے 30 اکتوبر 2017 کو مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں مقامی حکومت نے برطانوی دفتر داخلہ سے رابطہ کیا تھا جس پر برطانوی حکام نے اسحٰق ڈار کی وطن واپسی کے حوالے سے چند سوالات کیے تھے اور جسے نیب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

موجودہ حکومت نے اکتوبر 2018 میں اسحٰق ڈار کی وطن واپسی کے حوالے سے اقدامات کیے تھے۔

'آمدن سے زائد اثاثے'

28 جولائی 2018 کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان، جماعت اسلامی کے سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد کی درخواست پر نیب کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز اور اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

سابق وزیر خزانہ کے خلاف نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم کے اپنے نام پر یا ان کے اہل خانہ کے نام پر 83 کروڑ 16 لاکھ سے زائد کے اثاثے ہیں جو ان کی آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے جس پر ان کا احتساب ہونا چاہیے۔