امریکا نے چینی کمپنی کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے بلیک لسٹ میں شامل کردیا جس کے باعث امریکی کمپنیاں ہواوے کو پرزہ جات اور دیگر سپورٹ ٹرمپ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر فراہم نہیں کرسکیں گی۔
امریکی محکمہ تجارت نے اس پابندی کو 3 ماہ کے لیے ملتوی کردیا اور اب اس کا اطلاق اگست میں ہونا ہے۔
ہواوے کے بانی نے شینزین میں واقع کمپنی کے ہیڈکوارٹر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ امریکا کی جانب سے اتنے زیادہ پہلوﺅں سے ہمیں ہدف بنایا جائے گا، اس سے تمام فریقین متاثر ہوں گے اور کوئی بھی جیت نہیں سکے گا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ 2021 تک ہم اس کے اثرات سے باہر نکل جائیں گے۔
انہوں نے کہا 'ہم پرزہ جات کی سپلائی حاصل نہیں کرسکیں گے، متعدد بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام نہیں کرسکیں گے، متعدد یونیورسٹیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا، ہم کسی قسم کے امریکی آلات استعمال نہیں کرسکیں گے اور نیٹ ورکس کے ساتھ ان آلات کی مدد سے قائم کیا جانے والا کنکشن بھی بناسکیں گے'۔
گزشتہ سال ہواوے کی آمدنی 104 ارب ڈالرز رہی تھی اور 2019 میں اس نے آمدنی کا تخمینہ 125 سے 130 ارب ڈالرز تک رکھا تھا مگر اب امریکی پابندیوں کے بعد یہ تخمینہ 100 ارب ڈالرز ہوگیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا 'اگلے 2 برسوں میں میرے خیال میں ہماری توسیع میں کمی آئے گی، ہماری آمدنی سابقہ اندازوں کے مقابلے میں 30 ارب ڈالرز تک کم ہوسکتی ہے، اسی لیے رواں برس اور 2020 میں ہماری آمدنی 100 ارب ڈالرز تک رہنے کا امکان ہے'۔
تاہم رین زین فی نے کہا کہ امریکا کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کمپنی کو آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتے۔
امریکی کمپنیاں پابندی ختم کرانے کے لیے سرگرم دوسری جانب ہواوے کو چپ سپلائی کرنے والی کمپنیاں کوالکوم اور انٹیل نے خاموشی سے امریکی حکومت کے اندر چینی کمپنی پر عائد پابندی کو نرم کرانے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔
خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ بڑی امریکی چپ بنانے والی کمپنیوں انٹیل اور Xilinx کے عہدیداران نے مئی کے آخر میں امریکی محکمہ تجارت کے ایک اجلاس میں شرکت کی تاکہ ہواوے کو بلیک لسٹ کیے جانے پر ردعمل ظاہر کرسکیں۔