پاکستان

عمر قید کا مطلب 25 برس نہیں تاحیات قید ہے، چیف جسٹس

مناسب وقت پر عمر قید قانون کی درست تشریح کریں گے، ایسا ہوگیا تو مجرم عمر قید کے بجائے سزائے موت مانگیں گے، ریمارکس
|

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے عمر قید کے قانون کی موجودہ تشریح کو غلط کہتے ہوئے ’مناسب وقت‘ پر اس کا جائزہ لینے کے ارادے کا اظہار کردیا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قتل کے مجرم عبدالقیوم کی سزائے موت کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمر قید کا مطلب 25 برس قید نہیں بلکہ تاحیات قید ہے، کسی مناسب وقت پر عمر قید کے قانون کی درست تشریح کریں گے اور ایک مرتبہ ایسا ہوگیا تو پھر مجرم عمر قید کے بجائے سزائے موت مانگیں گے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: 52 مرتبہ سزائے موت پانے والا شخص بری

ساتھ ہی یہ ریمارکس بھی دیے کہ ایک مرتبہ ایسا ہوگیا تو پھر ’ہم دیکھیں گے کہ کون قتل کرتا ہے‘۔

واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ عدلیہ کی جانب سے اس طرح کے ریمارکس دیے گئے، 2004 میں 5 رکنی بینچ سے زیادہ سے زیادہ 62 اپیلوں میں ان مجرموں کی سزائے موت کی بحالی کی اپیل کی گئی تھی جن کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید کی تھی۔

دوسری جانب پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 57 میں کہا گیا ہے کہ ’سزا کی شرائط کے مختلف حصوں کے طور پر عمر قید کی سزا کو 25 سال کی سزا کے برابر سمجھا جائے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: سزائے موت کے ملزم کی سزا 19 سال بعد عمر قید میں تبدیل

تاہم چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے یہ ریمارکس دیے گئے کہ عمر قید کا مطلب 25 سال قید نکال لیا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔

بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مجرم کی سزائے موت برقرار رکھی۔

یاد رہے کہ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے بھی مجرم عبدالقیوم کو سزائے موت سنائی تھی۔