اگر آپ بیمار ہیں
مچھر صحت مند کے مقابلے میں بیمار افراد کی جانب زیادہ متوجہ ہوتے ہیں کیونکہ بیماری کے دوران جسمانی درجہ حرارت عموماً بڑھ جاتا ہے جبکہ جسم زیادہ مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی خارج کرنے لگتا ہے۔
گہرے رنگ کا لباس
اگر آپ کی خواہش ہے کہ مچھر آپ سے دور رہیں تو ہلکے رنگ کے کپڑوں کا انتخاب کریں، گہرے رنگ کا لباس سورج سے زیادہ حرارت جذب کرتا ہے جس کے تنیجے میں مچھر بھی آپ کی جانب زیادہ کشش محسوس کرتے ہیں۔
کپڑوں میں بو
پسینے کے اخراج کے دوران جسم مختلف اقسام کے کمپاﺅنڈ خارج کرتا ہے، جلد پر موجود بیکٹریا ان کمپاﺅنڈ کے ٹکڑے کرکے ایک بو بناتے ہیں جو مچھروں کو کشش کرتی ہے۔ تو صاف کپڑوں کا استعمال مچھروں کو دور رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
بدبو دار پیر
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ مچھر پیروں میں ہی زیادہ کیوں کاٹتے ہیں؟ اس کی وجہ وہاں قدرتی طور پر موجود بیکٹریا کی موجودگی ہے، یہ بیکٹریا جلد میں ایک مخصوص بو کا باعث بنتا ہے جو کہ مچھروں کو اپنی جانب زیادہ کھینچتی ہے۔
خون کا گروپ
جرنل آف میڈیکل اینٹومولوجی میں شائع ایک تحقیق کے مطابق بلڈ گروپ O مچھروں کو دیگر بلڈ گروپس کے مقابلے میں زیادہ اپنی جانب کھینچتا ہے۔
حمل
ایک تحقیق کے مطابق حاملہ خواتین کا جسمانی درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ مچھروں کے لیے پرکشش ہوجاتی ہیں، خاص طور پر ملیریا کا مچھر ان کو زیادہ کاٹتا ہے۔
الکحل
ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ الکحل کے استعمال کرنے والے افراد کو مچھر اپنے شکار کے لیے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
بو
کچھ افراد کے جسم مچھروں کو اپنی جانب کھینچنے والی بو پیدا کرتے ہیں اور بھی یہ واضح نہیں کہ ایسا کیسے ہوتا ہے تاہم ایک تحقیق کے مطابق جسمانی بو بھی مچھروں کو اپنی جانب کھینچنے والے عناصر میں سے ایک ہے۔
جلد میں چھپے بیکٹریا
جلد میں رہنے والے بیکٹریا جسمانی بو کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جن افراد کی جلد میں زیادہ مختلف اقسام کے بیکٹریا موجود ہو وہ مچھروں کے حملوں سے کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔
ورزش
جب آپ ورزش کرتے ہیں تو جسم میں lactic acidپیدا ہوتا ہے جو کہ مچھروں کو اپنی جانب کھینچنے والا عنصر ہوتا ہے جس کی تصدیق کچھ طبی تحقیقی رپورٹس میں کی جاچکی ہے۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں مچھروں کی 3 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے کچھ جان لیوا امراض جیسے ملیریا، زرد بخار، ڈینگی وغیرہ کو انسانوں میں منتقل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر سال سات لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔