رواں برس جنوری میں ہونے والے اس واقعے کے نتیجے میں ایک غیر مسلح شخص، اپنی بیوی اور 14 سالہ بیٹی سمیت مار دیا گیا تھا جبکہ ان کے کم سن بچے زخمی ہوئے تھے۔
پولیس نے ابتدائی طور پر تمام متاثرین کو دہشتگرد قرار دیا، بعدازاں انکشاف ہوا کہ وہ تمام افراد بے گناہ مسافر تھے۔
جب احتجاجی مظاہروں کے باعث امن و امان کی صورتحال بگڑنے لگی اور حکومت اعتماد کھونے لگی تب اس نے متاثرہ خاندانوں کو انصاف دینے کے بہت ہی بڑے بڑے وعدے کیے۔
متاثرہ خاندانوں کی جانب سے مقدمہ ساہیوال سے کسی دوسری جگہ منتقل کروانے کے لیے کی جانے والی کوششیں میں حکومت نے ان کی کسی قسم کی مدد نہیں کی ہے۔ متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ انہیں خوفزدہ کیا گیا ہے اور چونکہ وہ سماعت پر لاہور سے طویل فاصہ طے کرکے آتے ہیں اس لیے عدالت میں پیشی اور گواہی دینے سے گھبراتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم آن ریکارڈ پارلیمنٹ میں (جب بھی چند موقعوں پر جب بھی آمد ہوئی تب) ان پر کی جانے والی تنقید پر بے چینی کا اظہار کرچکے ہیں۔ ان کی جانب سے بار بار مغربی جمہوریتوں اور سماجوں کی مثالیں سُن سُن کر حیرانی ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے مہذبانہ اقدار کا سنہری معیار مغربی جمہوریتیں اور وہاں کے سماج ہیں۔
سوچتا ہوں کہ نہ جانے انہوں نے برطانیہ کے ایوانِ زیریں جسے پارلیمنٹوں کی ماں بھی پکارا جاتا ہے یعنی ہاؤس آف کامنز میں ہونے والی کارروائیوں کو دیکھ رکھا ہے بھی یا نہیں۔ وہاں وزیر اعظم اور کابینہ اراکین پر تنقید کے خوب تیکھے نشتر چلائے جاتے ہیں مگر وہ ان تمام تنقیدی حملوں کو عین جمہوری روایات کے مطابق مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر دوراہے پر کھڑا ہوگیا ہے۔ اب یا تو یہ ایک کٹھن راستے پر گامزن ہوا جائے اور جمہوری سمت کی طرف قدم بڑھایا جائے، جہاں حکمران پارلیمنٹ اور میڈیا میں ہونے والی جائز تنقید کو اس حد تک تعمیری اعتبار سے قبول کرنا سیکھتے ہیں کہ جب غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں یا ہورہی ہوتی ہیں تب انہیں سدھارنے کا موقع مل جاتا ہے۔
یا پھر مصر یا سوڈان کی مثال کی پیروی کی جائے کہ جہاں سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومتیں اپنے ہی عوام سے ظالمانہ سلوک روا رکھتی ہیں۔
حالیہ چند ماہ کے دوران مقتدرین کے چند فیصلوں اور کاموں کو دیکھیں تو یہی راستہ اس قدر پُرکشش معلوم ہوتا ہے کہ خود کو روکنا مشکل ہوجائے۔
یہ راہ پرکشش تو بھلے ہی لگتی ہو مگر پاکستانی عوام کے جذبہ آزادی اور اس تنوع کو مد نظر رکھیں جس کی نمائندگی وفاق کرتا ہے تو یہ بارودی سرنگوں سے بھرا ایک راستہ نظر آئے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کو یاد رکھیں کہ ہماری زیادہ تر سرحدوں پر منحرف بیرونی طاقتوں کا ڈیرہ ہے۔
ہمارے وطنِ عزیز کی مستقل خوشحالی اور تحفظ کا واحد اور حقیقی ضامن وفاقی اکائیوں، عوام اور ان اداروں کا آپسی اتحاد ہے جس میں وہ تنوع کی طاقت کا احترام ہو اور اس کی قدردانی بھی ہو۔
یہ مضمون 15 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
ترجمہ: ایاز احمد لغاری