فواد چوہدری کا صحافی کو تھپڑ، وزارت نے وضاحت کردی
وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی نے وفاقی وزیر فواد چوہدری کے صحافی سمیع ابراہیم کو تھپڑ مارنے کے الزام پر وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے کو 2 اداروں میں تصادم سمجھنے کے بجائے 2 اشخاص کے درمیان تنازع تصور کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ سمیع ابراہیم نے فیصل آباد کے تھانے منصور آباد میں فواد چوہدری کے خلاف شادی کی تقریب کے دوران تھپڑ مارنے کی شکایت درج کرائی تھی۔
دائر کی گئی شکایت کی کاپی جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے اور اسے سمیع ابراہیم نے بھی ری ٹویٹ کیا، میں لکھا تھا کہ فواد چوہدری نے انہیں تھپڑ مارا اور گالیاں دیں۔
مزید پڑھیں: صحافی کیلئے ٹوئٹر پر نامناسب زبان کا استعمال، فواد چوہدری پر تنقید
انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی انہیں دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔
وزارت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’ایک شخص نے دوسرے شخص کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی کوشش کی تو متاثر ہونے والے شخص نے اس کا ردعمل دیا ہے‘۔
وزارت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’کسی محب وطن پاکستانی اور حکومتی عہدیدار کو بھارتی خفیہ ادارے 'را' یا یہودیوں کا ایجنٹ کہنا اخلاقی اور صحافتی اقدار کے منافی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فواد چوہدری کے اس اقدام کےخلاف احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ سمیع ابراہیم سے بھی پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے ایک محب وطن پاکستانی کی عزت نفس، جو ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے، کو کیوں پامال کیا؟‘۔
دوسری جانب فواد چوہدری کے اس عمل پر صحافی برادری نے مذمت کی۔
صحافی عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ’فواد چوہدری کی شرمناک حرکت کی مذمت کرنے کے لیے سمیع ابراہیم کی ہر بات سے اتفاق ہونا ضروری نہیں ہے، ایسی گھٹیا حرکت پر آواز نہ اٹھانے کا مطلب اس طرح کی بدمعاشی کی حوصلہ افزائی ہے، پھر وہ رکے گا نہیں یہ تھپڑ کا نشانہ کل آپ بھی ہو سکتے ہیں اور وہ اس کا جواز بھی فراہم کرے گا‘۔
صحافی عارف حمید بھٹی نے کہا کہ ’تھپڑ سمیع ابراہیم کے من پر نہیں بلکہ پاکستان کی صحافت اور جمہوریت کے منہ پر ہے۔
انہوں نے فواد چوہدری کے اس عمل پر انہیں سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آمریت کا مقابلہ کرنے والے صحافیوں کو دبایا نہیں جاسکتا‘۔
تاہم ان کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’آپ کو غصہ صرف امیر صحافیوں کے لیے کیوں آتا ہے، جب عابد راہی جیسے سیلف میڈ غریب صحافیوں کو سمیع ابراہیم جیسےمافیاز تنخواہیں نہیں دیتے اس وقت آپ کی صحافت خطرے میں کیوں نہیں آتی؟‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دراصل صحافت کو خطرہ زرد صحافیوں سے ہے اور زرد صحافت کے خلاف مہم چلانا ہو گی‘۔
کراچی پریس کلب میں بھی واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔
خیال رہے کہ فواد چوہدری اور سمیع ابراہیم کے درمیان تنازع کا آغاز رواں ماہ کے آغاز میں ہوا تھا جب سمیع ابراہیم کی جانب سے فواد چوہدری پر حکمراں جماعت کے خلاف سازش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
فواد چوہدری نے سمیع ابراہیم کے الزامات کے جواب میں تنقید کرتے ہوئے ان کے لیے نامناسب زبان استعمال کی تھی۔