لندن: بانی ایم کیو ایم الطاف حسین ضمانت پر رہا
بانی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) الطاف حسین 2 روز تک لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے زیر حراست رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوگئے۔
برطانوی پولیس کے مطابق متحدہ کے بانی کو ناکافی شواہد کی بنا پر ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ’الطاف حسین سے 2 روز تک پولیس اسٹیشن میں تفتیش کی گئی جس کے بعد ناکافی شواہد کی بنا پر انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا‘۔
دوسری جانب اسکاٹ لینڈ یارڈ کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کو وسط جولائی تک ضمانت ملی۔
سینٹرل لندن کے سدک پولیس اسٹیشن کے باہر ایم کیو ایم کے مقامی کارکن الطاف حسین کی رہائی کی خبر ملنے پر جمع ہوگئے اور اپنے قائد کے حق میں نعرے بازی کی۔
واضح رہے کہ الطاف حسین کو لندن میٹرو پولیٹن پولیس نے گزشتہ روز اشتعال انگیز تقاریر کے کیس میں حراست میں لیا تھا۔
مزید پڑھیں: بانی ایم کیو ایم الطاف حسین لندن میں گرفتار
میٹرو پولیٹن پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو پاکستان میں کی گئی تقاریر سے متعلق تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔
بیان میں بتایا گیا کہ 60 سال سے زائد عمر کے شخص کو شمال مغربی لندن میں سنگین جرائم ایکٹ 2007 کی دفعہ 44 کے تحت دانستہ طور پر اکسانے یا جرائم میں معاونت فراہم کرنے کے شبے میں گرفتار کیا گیا۔
خیال رہے کہ رواں برس اپریل میں برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کی 12 رکنی ٹیم نے ایم کیو ایم لندن کے قائد الطاف حسین کی 2016 کی متنازع تقریر سے متعلق کیس میں اپنی تفتیش مکمل کی تھی۔
اس سلسلے میں برطانوی پولیس کیس میں ثبوتوں کے حصول اور گواہوں کے بیانات کے لیے پاکستان آئی تھی، اس تفتیش کے دوران سندھ پولیس حکام کی ٹیم کے 6 اراکین برطانوی پولیس کی انسداد دہشت گردی کمانڈ (ایس او 15) کے سامنے بطور گواہ پیش ہوئے تھے اور اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔
کیس کی تفتیش کے دوران برطانوی پولیس کے ماہرین نے سندھ پولیس کے ان حکام کا انٹرویو کیا جو اس وقت صدر کراچی میں تعینات تھے جب 22 اگست 2016 میں الطاف حسین نے پاکستان مخالف تقریر کی تھی۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے قائد کی اس تقریر کے بعد ان کی جماعت کے حامیوں نے کراچی پریس کلب کے قریب میڈیا ہاؤسز پر مبینہ طور پر حملہ کیا تھا، پرتشدد کارروائیاں کی تھی اور گاڑیوں کو نذرآتش کیا تھا۔
تفتیش سے متعلق سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ برطانوی سی ٹی سی ٹیم کا مقصد 22 اگست 2016 کے واقعے کے اہم گواہوں سے تحریر بیان کو ثبوت کی شکل میں حاصل کرنا تھا۔
برطانوی پولیس کی جانب سے حاصل کیے گئے ثبوتوں کو اس بات کا تعین کرنے کے لیے کراؤن پروسیکیوشن سروس کے سامنے پیش کرنا تھا کہ آیا برطانوی عدالتوں میں الطاف حسین کے خلاف کارروائی کے آغاز کے لیے یہ کافی مواد ہے۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف نہ صرف نفرت انگیز تقریر بلکہ دیگر مقدمات بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 22 اگست 2016 کے بعد ایم کیو ایم کہاں کھڑی ہے؟
اس سے قبل سال 2013 میں لندن پولیس نے الطاف حسین کے گھر اور دفتر پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں چھاپے مارے تھے، جس میں الطاف حسین کے گھر سے مبینہ طور پر بڑی تعداد میں نقدی برآمد ہوئی تھی جسے 'پروسیڈ آف کرائم ایکٹ' کے تحت قبضے میں لے لیا گیا تھا۔
اس کے بعد لندن پولیس نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے علاوہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کردی تھی۔
ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، جون 2014 میں الطاف حسین کو برطانیہ میں پولیس نے تحقیقات کے لیے حراست میں لیا تھا، تاہم انہیں چند روز بعد رہا کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں کیس کی تحقیقات کے دوران ان کی ضمانت میں کئی بار توسیع کی گئی۔
13 اکتوبر 2016 اسکاٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس ختم کردیا تھا، تاہم بعد ازاں 2017 میں حکومت پاکستان نے برطانیہ سے ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات ختم کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی۔