پاکستان

حمزہ شہباز 26 جون تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

نیب نے اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی کو لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کیا تھا،اس موقع پرسیکیورٹی کےسخت انتظامات کیے گئے۔
|

لاہور کی احتساب عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر حمزہ شہباز کو 26 جون تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم سخت سیکیورٹی میں پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کو لے کر لاہور کی احتساب عدالت پہنچی تھی۔

لاہور کی احتساب عدالت کے منتظم جج جواد الحسن نے حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر نیب کے وکیل وارث جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز کو ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا۔

جج نے استفسار کیا کہ ملزم کہاں ہے کیا ملزم عدالت میں موجود ہے جس پر حمزہ شہباز کے وکیل نے بتایا کہ حمزہ شہباز شریف کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا حمزہ شہباز کو ان کی گرفتاری کی وجوہات بتائی گئیں جس پر پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز کو گرفتاری کی وجوہات بتا دی گئی ہیں۔

نیب کے تفتیشی افسر حامد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز کے بینک اکاؤنٹس سے مشکوک ٹرانزیکشنز ہوئیں، 2003 میں حمزہ کے اثاثے سوا 2 کروڑ روپے تھے جبکہ 2005 سے 2007 تک انہوں نے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کیے۔

انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ 2009 میں حمزہ شہباز شریف کے اثاثے بڑھ کر 21 کروڑ روپے ہوگئے، تاہم جب بھی حمزہ شہباز سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اس سوال کا جواب عدالت میں دیں گے۔

نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو حمزہ شہباز کی نیب دفتر میں حاضری سے متعلق آگاہ کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر طلبی کے 9 نوٹسز کے نتیجے میں صرف 5 مرتبہ پیش ہوئے۔

حامد جاوید نے عدالت میں استدعا کی کہ انہیں حمزہ شہباز کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے کیونکہ اس دوران ملزم کے اکاؤنٹ میں آنے والے 18 کروڑ روپے سے متعلق تفتیش کرنی ہے۔

حمزہ شہباز کی جانب سے ان کے وکیل امجد پرویز اور سلمان اسلم بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: نیب نے حمزہ شہباز کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا

سول سیکریٹریٹ کے باہر کینٹینرز لگائے گئے تھے اور لیگی کارکنان کو سول سیکریٹریٹ تک محدود رکھا گیا تھا جبکہ احتساب عدالت کے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کردیا گیا تھا۔

جوڈیشل کمپلیکس کے اندر اور باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی جبکہ کسی بھی لیگی کارکن کو جوڈیشل کمپلیکس کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اس دوران مسلم لیگ (ن) کی رکن صوبائی اسمبلی رخسانہ کوثر اور لیڈی پولیس کے درمیان تکرار، ہاتھا پائی میں تبدیل ہوگئی۔

پولیس نے موقف اختیار کیا کہ پہلے لیگی ایم پی اے نے پولیس لیڈی اہلکاروں پر ہاتھ اٹھایا جبکہ لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ کسی نے تھپڑ نہیں مارا، پولیس الزام لگا رہی ہے۔

حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ نیب نے ان کے موکل سے جو بھی سوالات کیے ان کے جوابات دے دیے گئے ہیں۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حمزہ شہباز شریف طلبی کے نوٹس کے تحریری جواب بھی نیب کو دے چکے ہیں جبکہ انہوں نے اپنے تمام اثاثے بھی ظاہر کیے ہیں۔

امجد پرویز نے یہ بھی بتایا کہ نیب قوانین کے مطابق ملزم کو گرفتاری کی وجوہات اور ثبوت فراہم کیے بغیر اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان کے موکل پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے اپوزیشن لیڈر ہیں، ان کی گرفتاری میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

امجد پرویز نے منی لانڈرنگ کے الزام کو لطیفہ قرار دیا اور اپنے دلائل کے دوران کہا کہ لوگوں کو نیب کا یہ لطیفہ سچ لگنے لگا ہے۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل ایک بڑے کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ سیاست میں آنے سے قبل تاجر رہے ہیں۔

نیب کے دائر اختیار پر اعتراض اٹھاتے ہوئے امجد پرویز نے عدالت میں کہا کہ نیب تو انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی کر ہی نہیں سکتا جبکہ جس قانون کے تحت حمزہ شہباز کا ریمانڈ مانگا جا رہا ہے وہ ان پر لاگو نہیں ہوتا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل کا جسمانی ریمانڈ نہیں بلکہ جوڈیشل ریمانڈ ہونا چاہیے کیونکہ تمام ریکارڈ پہلے ہی نیب کے پاس ہے لہٰذا جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں۔

نیب کے وکیل نے عدالت میں ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عدالت مذکورہ کیس میں شریک ملزمان کا جسمانی ریمانڈ پہلے ہی منظور کر چکی ہے۔

احتساب عدالت کے منتظم جج جواد الحسن نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نیب کی درخواست پر پہلے فیصلہ محفوظ کیا اور اس کے کچھ دیر بعد اسے سناتے ہوئے 26 جون تک حمزہ شہباز کو جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔

واضح رہے کہ سماعت کے دوران نیب نے رمضان شوگر ملز میں بھی حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری ڈال دی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو نیب نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات میں گرفتار کیا تھا۔

واضح رہے کہ حمزہ شہباز کی ضمانت 11 جون کو ختم ہوگئی تھی، جس میں توسیع کے لیے انہوں نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا تھا، تاہم عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ضمانت میں توسیع کا معاملہ احتساب عدالت دیکھے گی جس پر لیگی رہنما نے اپنی درخواست واپس لے لی اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

حمزہ شہباز کی گرفتاری کیلئے نیب کے چھاپے

واضح رہے کہ 5 اپریل 2019 کو آمدن سے زائد اثاثہ جات اور مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں نیب کی ٹیم نے لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا تھا، تاہم وہ انہیں گرفتار نہیں کرسکی تھی۔

اس واقعے کے اگلے روز 6 اپریل کو ایک مرتبہ پھر نیب کی ٹیم مذکورہ کیسز میں حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ پر پہنچی تھی اور گھر کا محاصرہ کرلیا تھا۔

لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ 96 ایچ میں موجود حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے نیب کا یہ دوسرا چھاپہ تھا۔

تاہم نیب کی یہ کارروائی ڈرامائی صورتحال اختیار کر گئی تھی اور تقریباً 4 گھنٹے کے طویل محاصرے کے باوجود نیب ٹیم کے اہلکار رہائش گاہ کے اندر داخل نہیں ہوسکے تھے۔

حمزہ شہباز کے قانونی مشیر نے نیب کے وارنٹ کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ حمزہ شہباز کی گرفتاری سے 10 روز قبل انہیں آگاہ کرنا ہوگا۔

بعد ازاں اسی روز لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم نے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے نیب کو 8 اپریل تک حمزہ شہباز کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔

جس کے بعد 8 اپریل کو حمزہ شہباز لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تھے اور ضمانت کی درخواست دائر کی تھی، جس کے بعد انہیں 17 اپریل تک ضمانت دے دی گئی تھی، جس میں بعد میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی۔