افسانہ: شہوت، جبلت اور حق
اس نے ایک ہاتھ سے لاش کا منہ پورا کھولا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے پلاس سے باری باری اختر کے دانت اکھاڑنے شروع کر دیے
’اوئے اِدھر آ!‘، پرویز نے بیڑی سُلگا کر ویٹر کو آواز لگائی۔
آدھی رات گزرے کافی وقت بیت چکا تھا لیکن لگتا تھا کہ نیپیئر روڈ پر چلتے پھرتے لوگوں کو وقت کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔
’ہاں کیا ہے؟‘، میلے کچیلے اور مریل سے ویٹر نے، کندھے پر ڈالے رومال سے ناک صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
پرویز نے بیڑی کا کش لگا کر جیب سے 20 روپے نکالے اوراس کی طرف بڑھائے۔
ویٹر نے بُرا سا منہ بنا کر پیسے پکڑے اور گندی پلیٹیں اٹھا کر وہیں کھڑا رہا۔
’ٹِپ؟‘، اس نے بے شرمی سے دانت نکالے۔