پاکستان

ڈیم فنڈ کی مد میں سپریم کورٹ کو یومیہ ایک کروڑ روپے کا نقصان

عدالت کی اپیل پر جمع ہونے والے فنڈز اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں جو کبھی بھی فنڈز جمع کروانے پر سود نہیں دیتا، بینک عہدیدار

اسلام آباد: دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے لیے جمع ہونے والے 10 ارب 60 کروڑ روپے کے فنڈز کی بروقت سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث سپریم کورٹ کو سود کی مد میں تقریباً ایک کروڑ روپے روزانہ کا نقصان ہورہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے جسٹس عظمت سعید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ’اس کی تمام تر ذمہ داری اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی سی) پر عائد ہوتی ہے‘۔

سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ نے دیامر بھاشا اور مہند ڈیم کے معاملے پر اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ عدالت اس کی مستقل سرمایہ کاری کا تعین ہونے تک مذکورہ فنڈز کی 2، 3 یا 7 دن کی مختصر مدت کے لیے سرمایہ کاری کرسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیم فنڈمیں جمع رقم سے سرمایہ کاری کیلئے اسٹیٹ بینک سے تجاویز طلب

اس ضمن میں جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی مرکزی بینک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ’اندازہ لگائیں کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے عدالت کو درست مشورہ نہ ملنے کے باعث گذشتہ 3 ماہ میں ہمیں کس قدر نقصان ہوا ہے‘۔

مذکورہ نقصان کے حوالے سے سیکریٹری قانون انصاف کمیشن پاکستان ڈاکٹر رحیم اعوان نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا، انہوں نے بتایا کہ ٹریژری بلز کے ساڑھے 3 ارب روپے کی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے کمیشن کو سود کی مد میں روانہ 35 کروڑ روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کمیشن برائے قانون و انصاف کی طرح سپریم کورٹ کو بھی ڈیم فنڈ میں سود کی مد میں روزانہ تقریباً ایک کروڑ روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈیم فنڈ: بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے اب تک ایک ارب روپے فراہم کیے

اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کے نمائندے محمد علی ملک عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ سپریم کورٹ کی اپیل پر اکٹھے ہونے والے فنڈز اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں جو کبھی بھی فنڈز جمع کروانے پر سود نہیں دیتا۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ‘یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک عدالت کا وقت برباد کررہا ہے کیوں کہ اس طرح کے فنڈز جمع ہونے پر سود نہیں دیا جاتا‘۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کو 13 جون کا نوٹس بھجوادیا جس میں ذمہ دار افسر کو تعینات کرنے کی ہدایت کی گئی جو سرمایہ کاری کے بہتر طریقوں کے بارے میں عدالت کو بتا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیم فنڈ کی تشہیری مہم پر خرچ 13ارب روپے سابق چیف جسٹس سے وصول کرنے کا مطالبہ

اس پر نمائندہ اسٹیٹ بینک نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کی آئندہ نیلامی 19 جون کو ہوگی جس کے بعد عدالت کی منظوری سے ڈیم فنڈ سے ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے وضاحت دی کہ 3 ماہ کے لیے شرح سود 12.7 فیصد، 6 ماہ کے لیے 12.8 اور ایک سال کے لیے 13 فیصد ہوگی۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مرکزی بینک عدالت کا مددگار نہیں لہٰذا عدالت کو کسی اور سے سرمایہ کاری کی تجاویز لینی چاہئیں، انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ ایک چھوٹے سے شہر کا بینک منیجر مرکزی بینک سے بہتر سرمایہ کاری کے طریقے بتاسکتا ہے۔