دنیا

سوڈانی مظاہرین فوج سے مذاکرات اور احتجاج ختم کرنے پر رضامند

سوڈان کی فوجی کونسل نے بھی جھڑپ کے دوران حراست میں لیے گئے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کردیا۔

سوڈان میں فوج کی جانب سے اقتدار سول حکومت کو منتقل نہ کرنے پر جاری احتجاج کے مظاہرین نے فوج سے مذاکرات کرنے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبی احمد کے دورے کے بعد مظاہرین اور فوج کے درمیان ثالثی مشن کے لیے نمائندہ خصوصی محمود دِریر کا کہنا تھا کہ 'آزادی اور تبدیلی اتحاد نے سول نافرمانی مہم کے خاتمے کا پر رضامندی کا اظہار کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اقتدار کو عوامی حکومت کے حوالے کرنے پر دونوں جانب سے مذاکرات جلد بحال کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے'۔

احتجاجی تحریک نے بھی عوام کو آئندہ روز سے معمولات زندگی بحال کرنے کی کال دے دی۔

دوسری جانب سوڈان کی فوجی کونسل نے بھی جھڑپ کے دوران حراست میں لیے گئے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کردیا۔

خیال رہے کہ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں مسلح افواج اور احتجاجی مظاہرین کی جھڑپوں میں 100 سے زائد ہلاکتوں کے بعد احتجاجی گروپ سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن (ایس پی اے) نے سول نافرمانی کا اعلان کیا تھا۔

سوڈان میں ہو کیا رہا ہے؟

11 اپریل کو سوڈان کی فوج نے ملک میں جاری مظاہروں کے باعث 30 سال سے برسر اقتدار صدر عمر البشیر کو برطرف کرکے گرفتار کرلیا تھا اور اقتدار بھی سنبھال لیا تھا۔

وزیر دفاع نے ملک میں 2 سال کے لیے فوجی حکمرانی کا اعلان کرتے ہوئے سول جمہوری تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو مشتعل ہونے سے روکنے کے لیے ایمرجنسی بھی نافذ کردی تھی۔

تاہم سوڈان کے وزیر دفاع جنرل عود ابن عوف نے 12 اپریل کو ملٹری کونسل کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا تھا تاہم وہ اگلے ہی دن عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے جس کے بعد 13 اپریل کو جنرل عبدالفتح برہان نے حلف اٹھایا۔

فوج کی جانب سے صدر عمر البشیر کا تختہ الٹنے پر ہزاروں مظاہروں نے دارالحکومت خرطوم کے وسط کی طرف مارچ کیا تھا اور صدر کی برطرفی کی خوشیاں منائی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: سوڈان: عوام نے فوجی حکومت کو بھی مسترد کردیا

عود محمد ابن عوف نے کہا تھا کہ فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بنائی جانے والی ملٹری کونسل آئندہ 2 سال تک حکومت کرے گی جس کے بعد ’ شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں گے‘۔

انہوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ فوج نے آئین معطل کردیا، حکومت تحلیل کردی اور 3 ماہ کے لیے ایمرجنسی بھی نافد کردی، تاہم صدر عمرالبشیر کی برطرفی کے بعد فوجی نظام سنبھالنے پر بھی مظاہرین نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے رہنماؤں نے صدر کی برطرفی کے بعد تشکیل دی گئی ملٹری کونسل کو بھی مسترد کردیا تھا۔

مظاہرین نے ملک میں جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے سول قیادت اور سوڈان میں جاری تنازعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا جن کی وجہ سے ملک بدترین غربت کا شکار ہے۔

تاہم 4 جون کو سیکیورٹی فورسز نے ملٹری ہیڈکوارٹرز کے باہر جمع مظاہرین پر فائر کھول دیئے تھے، جس میں ابتدائی طور پر 30 افراد ہلاک ہوئے۔

8 جون کو سوڈان کے اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ دارالحکومت خرطوم میں دریائے نیل سے 40 لاشیں نکالی گئیں جس کے بعد سیکیورٹی فورسز کے مظاہرین پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 بتائی گئی۔