ازمس جھیل، اَن دیکھی خوبصورتی
ازمس جھیل، اَن دیکھی خوبصورتی
صوبہ خیبر پختونخوا کے مشہور شاعر، مُصنف، محقق اور صحافی سعداللہ جان برق پشتونوں کی تاریخ پر مبنی اپنی 3 جلدی تصنیف ’د پختنو اصل نسل‘ میں لکھتے ہیں کہ اولین انسان کے جنت سے نکالے جانے کے تصور کے حوالے سے میرا خیال ہے کہ پہلے پہل انسان پہاڑوں کا باسی تھا۔ پہاڑوں میں کھانے پینے کی اشیا کی کوئی کمی نہ تھی۔ یہی پہاڑ انسان کی جنت تھے۔ پھر جب اشیائے خورد و نوش میں کمی واقع ہونے لگی تو انسان پہاڑوں سے نیچے زمین پر بسیرا کرنے لگا اور اپنی جنت سے نکل آیا۔
میں جب بھی پہاڑوں کی سیر کے لیے نکلتا ہوں، کسی نئی آبشار یا جھیل کا نظارہ کرتا ہوں، تو پتا نہیں کیوں میرے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ جیسے صدیوں پہلے میری روح اس جھیل یا آبشار کو دیکھ چکی ہے اور اسے اپنے اندر جذب کرچکی ہے۔
اس تحریر کے ذریعے ایک ایسی ہی جھیل کی سیر کرانا مقصود ہے، جس کے بارے میں باقی ماندہ پاکستان کے باسی تو دُور کی بات، اپنی وادی ’اتروڑ‘ کے باسی بھی کم ہی جانتے ہیں۔ آپ اسے بجا طور پر اَن دیکھا پاکستان کہہ سکتے ہیں۔ آئیے، سب سے پہلے وادئ اتروڑ کا مختصر تعارف آپ سے کرواتے ہیں۔
وادئی اُتروڑ
وادئ اُتروڑ کو اگر جھیلوں کی وادی کہا جائے تو یہی بہتر ہوگا۔ وہ اس لیے کہ دیومالائی کہانیوں کے لیے مشہور جھیل ’کنڈول‘ ہو، سحر انگیز جھیل ’سپین خوڑ‘ ہو، پریوں کا مسکن ’پری جھیل‘ ہو یا پھر تاحد نگاہ پھیلے سرسبز مرغزاروں اور سبزہ زاروں کا لُطف دوبالا کرنے والی جھیل ’ازمس‘ ہو، ان جھیلوں کی سیر کے لیے ضرور بالضرور اس چھوٹی سی وادی کا رُخ کرنا ہوگا۔
اُتروڑ میں ’لدو بانڈہ‘ مذکورہ تمام جھیلوں کے لیے ایک طرح سے بیس کیمپ کا کردار ادا کرتا ہے۔ لدو کا اپنا حسن اتنا ہے کہ ایک بار یہاں قدم رنجہ فرمانے والا تادمِ آخر اس کے سحر سے خود کو نکال نہیں پاتا، اور اسی وادی اُتروڑ کا دیسان بانڈہ تو نہ صرف سوات بلکہ پورے ملک میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔