پاکستان

آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت مسترد

عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 2 ماہ سے زائد ضمانت پر رہنے والے سابق صدر اور ان کی بہن کو گرفتار کرنے کی بھی اجازت دے دی۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر پاکستان، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی ڈویژن بینچ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

آصف علی زرداری اور فریال تالپور سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں ہی موجود تھے۔

سماعت کے دوران سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے ضمانتی مچلکے منظور کرنے کا احتساب عدالت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ احتساب عدالت نے پہلی مرتبہ مچلکے منظور کیے ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کراچی کی بینکنگ کورٹ نے بھی مچلکے منظور کیے تھے جس پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ متعلقہ ٹرائل کورٹ نے مچلکے منظور کرکے حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے مچلکے منظور کرلیے ہیں جس پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ متعلقہ کورٹ کے جج کا اختیار ہے کہ وہ وارنٹ جاری کرسکتا ہے، تاہم ابھی تک متعلقہ عدالت نے چارج بھی فریم نہیں کیا۔

سابق صدر کے وکیل نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں چیئرمین نیب کی جانب سے ضمنی ریفرنس دائر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، ریفرنس جب احتساب عدالت کو منتقل ہوگیا تو چیئرمین نیب کے پاس اختیار نہیں اور اگر ریفرنس منتقل ہوگیا تو تفتیشی رپورٹ بھی اس کے ساتھ منتقل ہوگئی۔

فارق ایچ نائیک نے چیئرمین نیب کے خط کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’چیئرمین نیب نے بینکنگ کورٹ سے درخواست کی تھی کہ یہ نیب کا کیس ہے اسے احتساب عدالت منتقل کیا جائے اس کیس میں کافی مواد موجود ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ضمانت کی درخواست کو درخواست ہی رہنے دیں، اسے ٹرائل نہ بنائیں آپ پہلے ہی اپنے دلائل دے چکے ہیں، اگر کوئی چیز رہ گئی ہے تو صرف اسے بتائیں۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ساڑھے 4 ارب روپے کی ٹرانزیکشن کا معاملہ ہے، اس حوالے سے تمام فہرست مہیا کر دی گئی ہے کہ کتنی رقم اکاؤنٹ میں آئی اور کتنی استعمال ہوئی۔

جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو بتایا کہ اے ون انٹرنیشنل اور عمیر ایسوسی ایٹس سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی، ان اکاؤنٹس کے ساتھ زرداری گروپ اور پارتھینون کمپنیوں کی ٹرانزیکشن ہوئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ یہ صرف ایک اکاؤنٹ کی ٹرانزیکشن ہے جبکہ 29 میں سے 28 اکاؤنٹس کی تفتیش جاری ہے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے ان کی درخوستیں مسترد کردیں۔

عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 2 ماہ 12 دن ضمانت پر رہنے والے سابق صدر اور ان کی بہن کو گرفتار کرنے کی بھی اجازت دے دی۔

واضح رہے کہ آصف علی زرداری اور ان کی بہن عدالتی فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی عدالت سے چلے گئے تھے۔

تاہم عدالتی فیصلے کے بعد نیب حکام نے آصف علی زرداری کی گرفتاری کے لیے 2 ٹیمیں تشکیل دیں جن میں سے ایک ان کے گھر جبکہ ایک پارلیمنٹ ہاؤس پہنچادی گئیں۔

عدالتی عملے کے مطابق ڈویژن بنچ نمبر 2 نے باقی مقدمات پر آج سماعت منسوخ کردی تھی اور صرف ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔

جو بھی ہوگا خیر ہوگا، آصف علی زرداری

دوسری جانب ایک صحافی کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں درخواست ضمانت کی سماعت سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ’جو بھی ہوگا خیر ہوگا‘۔

آئندہ مالی سال 20-2019 کے بجٹ سے متعلق سوال کے جواب میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ’ان (تحریک انصاف حکومت) کو بجٹ بنانا ہی نہیں آتا۔

کیس کا پس منظر

2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: نیب کی دوسری پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: احتساب عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور کو طلب کرلیا

تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

بعدازاں نیب نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سیکریٹری آفتاب میمن، شبیر بمباٹ، حسن میمن اور جبار میمن کو گرفتار کر کے 14 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا، ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد ان ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا۔

اس سلسلے میں 20 مارچ کو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پارک لین اسٹیٹ کرپشن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب کے سامنے پیش ہوکر اپنے بیانات قلم بند کرائے تھے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے نیب کے سامنے بیانات قلمبند کرادیے

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی اور ساتھ ہی آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور و دیگر ملزمان کی ضمانتیں واپس لیتے ہوئے زر ضمانت خارج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا۔

احتساب عدالت کے رجسڑار نے بینکنگ کورٹ سے منتقل کئے جانے والے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد اسے احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کی عدالت میں منتقل کیا تھا۔