نقطہ نظر

افسانہ: طلاق، طلاق، طلاق

‘آدمی بھول سکتا ہے، یقین کرو، آدمی سب کچھ بھول سکتا ہے، حتٰی کہ یہ بھی کہ وہ آدمی ہے’۔

‘اوہ تم! جلدی آؤ اور یہاں بیٹھو، تمہارے بغیر کہانی ادھوری ہے۔ ہرکہانی میں کردار ہوتے ہیں، اب جب کے تم میرے گھر آگئی ہو تو میں تمہیں اپنی کہانی میں آنے کی دعوت دیتا ہوں’۔

‘شَٹ اَپ! پنکھا چلاؤ گرمی بہت زیادہ ہے، میں تمہارے گھر یہ بَک بَک سننے نہیں آئی’۔

‘وہ دراصل تمہارے آنے سے پہلے میں ایک کہانی لکھنے کا سوچ رہا تھا، ابھی کوئی کردار نہیں ملا تھا کہ تم آگئی’۔

‘کیا تم کوئی اور بات کرسکتے ہو؟’

‘نہیں بالکل نہیں، اس وقت میں صرف یہ کہانی لکھنا چاہتا ہوں’۔

‘یہ کیا بکواس ہے۔ کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟’

‘نہیں، میں سچ میں ایک کہانی لکھ رہا ہوں، یہ پاگل پن تو نہیں’۔

‘جھوٹ، تم نے کوئی کہانی نہیں لکھی’۔

‘لکھی ہے، میں نے صغیر کی کہانی لکھی ہے’۔

‘صغیر کی کہانی کیوں لکھی ہے؟ وہ تو میرا منگیتر ہے۔ میری محبت۔ ذرا سناؤ کیا لکھا ہے’۔

‘لو سنو۔ کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ صغیر آدھی رات کو گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کا باپ اس سے پوچھتا ہے کہ وہ کون ہے۔ صغیر کے بتانے کے باوجود اس کا باپ اسے نہیں پہچان پاتا اور دوبارہ پوچھتا ہے کہ وہ کون ہے اور آدھی رات کو اس کے گھر میں کیوں داخل ہوا ہے؟’

کس نے کہا یہ؟’ لڑکی نے پوچھا‘صغیر کے باپ نے’۔

‘صغیر کا باپ صغیر کو بھول گیا ہے کیا؟’

‘ہاں بھول گیا ہے’۔

‘تمہیں کیسے پتا چلا؟’

‘مجھے صغیر نے بتایا ہے’۔

‘کیا بتایا ہے؟’

‘یہی کہ اس کا باپ اسے بھول گیا ہے’۔

‘تم جھوٹ بولتے ہو، میرے چچا ایسا بالکل نہیں کرسکتے’۔ لڑکی نے کہا

‘یہ سچ ہے’۔

‘یہ جھوٹ ہے، صغیر مجھ سے محبت کرتا ہے اپنی ہر بات مجھے بتاتا ہے، اس نے تو مجھے کبھی نہیں بتایا کہ اس کا باپ اسے بھول گیا ہے، اور ایسا کیسے ممکن ہے کہ آدمی اپنی اولاد کو ہی بھول جائے؟’

‘آدمی بھول سکتا ہے، یقین کرو، آدمی سب کچھ بھول سکتا ہے، حتٰی کہ یہ بھی کہ وہ آدمی ہے’۔

‘بکواس ہے، ایسا نہیں ہوتا، تم کسی ماہرِ نفسیات کے پاس کیوں نہیں جاتے؟’

‘میں نے کہا نا کہ صغیر کو وہ بھول چکا ہے’۔

‘مجھے بتاؤ، کون مجھے بھول گیا ہے؟’، صغیر بھی وہاں پہنچ گیا۔

‘اوہ اچھا ہوا آپ آگئے، اب یہ کہانی مکمل ہوسکتی ہے، یہاں بیٹھو اور یہ لڑکی کون ہے آپ کے ساتھ؟’

‘یہ میری بیوی ہے اور میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا، تم نے جو کہنا ہے کہو’، صغیر نے جواب دیا۔

‘اوہ آپ کی بیوی، ایک منٹ رکیں مجھے یہ بات لکھنے دیں کہ آپ دونوں نے شادی کرلی ہے، کہانی میں ہر نکتہ بہت اہم ہوتا ہے، لیکن بات سنیں، آپ کی منگیتر تو پہلے سے یہاں موجود ہے۔’

‘یہ ڈائن ہے’، صغیر نے نفرت سے پہلی لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

‘ڈائن ہوگی یہ کالی چڑیل’

‘موٹی عورت، تم نے کالی کسے کہا؟’

‘صغیر تم کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو؟ کوئی تمہاری بیوی کو کالی چڑیل کہہ رہا ہے اور تم خاموش کھڑے ہو۔ کہاں گئی تمہاری غیرت؟’

‘میں بتاتا ہوں اس ڈائن کو، تم آرام سے صوفے پر بیٹھو’، صغیر نے اپنی بیوی کو یقین دہانی کروائی۔

‘خاموش رہو تم سب۔ میں کہانی لکھ رہا ہوں اور تم یہاں لڑائی جھگڑا کررہے ہو؟’

‘اب تم ایک طرف ہوکر بیٹھ جاؤ، یہ فیصلے کا وقت ہے کہانی لکھنے کا نہیں’، صغیر نے کہا۔

’اچھا ہے تم صغیر کے چُنگل سے بچ گئی ہو، یہ چور ہے، بدمعاش کہیں کا’

‘مجھے بچپن ہی سے چوروں نے بہت متاثر کیا ہے’، منگیتر نے کہا۔

‘میں چور نہیں ہوں’ صغیر چلّایا۔

‘یہ دیکھو میں نے ان صفحات پر خود لکھا ہے کہ ‘صغیر ایک چور ہے، ایک رات جب وہ چوری کرکے لوٹا تو اس کے باپ نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا’، کیا یہ عبارت جھوٹ ہے؟’

‘ہاں جھوٹ ہے، میں اس رات دوستوں کے ساتھ تھا’۔

‘نہیں نہیں پوری بات بتاؤ کہ تم دوستوں نے مل کر ایک گھر میں ڈاکا ڈالا تھا اور تمہارا ایک ساتھی گرفتار ہوچکا ہے، لہٰذا تم اب چھپتے پھر رہے ہو’۔

‘صغیرکیا تم چور ہو؟’ اُس کی بیوی نے روتے ہوئے پوچھا۔

‘نہیں یہ سب جھوٹ ہے، اس کہانی کار نے میرے خلاف سازش کی ہے، دراصل یہ اس ڈائن سے شادی کرنا چاہتا تھا آج اسے موقع ملاہے، مجھے پہلے ہی ان دونوں پر شک تھا’۔

‘تم مجھے سچ سچ بتاؤ، کیا تم واقعی چور ہو؟ یہ کنگن، یہ موبائل سب چوری کا مال ہے؟ افف میں برباد ہوگئی۔ ہائے افسوس میں نے تمہارے ساتھ بھاگ کر شادی کیوں کی، اب میں کس منہ سے ماں باپ کے گھر جاؤں گی وہ بھی مجھے پہچاننے سے انکار نہ کردیں’۔

‘یہ جھوٹ ہے’، صغیر چلّایا۔

‘یہ سچ ہے تمہاری انہی حرکتوں کی وجہ سے تمہارا باپ تمہیں نہیں پہچانتا’۔

‘یہ جھوٹ ہے’، صغیر پھر چلّایا۔

‘کیا میں اندر آسکتا ہوں؟’

‘ابّو آپ؟’ صغیر حیران ہوگیا۔

‘میں تمہیں نہیں جانتا کہ تم کون ہو، گزشتہ 10 روز سے میں خود کو سمجھارہا ہوں کہ میری کوئی اولاد نہیں ہے’، بوڑھے نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔

‘یہ دیکھو تمہارا باپ تمہیں نہیں پہچانتا، میں نے کہا تھا نا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں کہ صغیر کو اس کا باپ نہیں پہچانتا، اس جھوٹے مکار سے دُور رہو’۔

‘آپ کچھ دیر خاموش رہ سکتے ہیں، یہ ہمارا گھریلو معاملہ ہے، کسی بھی تیسری فریق کو بولنے کی اجازت نہیں’، بوڑھے نے کہا۔

‘صغیر تم نے ہمیشہ میری نافرمانی کی ہے، آہ افسوس! مجھے لوگ اب ایک چور کا باپ سمجھیں گے، میری عمر بھر کی شرافت کو دو کوڑی میں ملادیا۔ جب اسکول اور کالج میں تمہاری شکایتیں آتی تھیں تو تمہاری ماں کہتی تھی بڑا ہوگا تو سمجھدار ہوجائے گا، لیکن مجھے کیا خبر تھی بڑا ہوکر یہ ایک چور بن جائے گا، اور آج تو مجھے یہ بھی پتا چلا کہ تم نے بھاگ کر شادی کرلی ہے؟'

میری بھتیجی میں کیا کمی تھی، یہ بیچاری تمہاری منگیتر اب اس کا کیا بنے گا؟’

‘مجھے طلاق چاہیے’، صغیر کی بیوی چلائی۔

‘تم سب خاموش رہو، مجھے کہانی مکمل کرنی ہے’۔

‘تم خاموش رہو، یہ فیصلے کا وقت ہے کہانی کا نہیں’، صغیر کا باپ چلّایا۔

‘یہ کہانی میں لکھ رہا ہوں، تم سب خاموش رہو’۔

‘بکو مت، فیصلہ کرنے دو’۔

‘اچھا چلو یونہی سہی، کہانی کو رہنے دیتے ہیں۔ انکل میری بات سنیں، کیا آپ اپنی بھتیجی کی شادی مجھ سے کرسکتے ہیں؟’

‘کیوں؟’صغیر کے باپ نے پوچھا۔

‘دراصل مجھے آپ کی بھتیجی سے محبت ہے’۔

‘دیکھا میں کہتا تھا نا اس کہانی کار کا اس ڈائن کے ساتھ کوئی چکر ہے، کیسے اس نے ہمیں پھنسایا ہے’، صغیر نے اپنی بیوی سے کہا جو لگاتار رورہی تھی۔

‘کیا تم مجھ سے شادی کے لیے راضی ہو؟ تمہارے انکل بھی راضی ہیں، صغیر ایک چور ہے’۔

‘نہیں بالکل نہیں، میں تم پاگل کے ساتھ بالکل نہیں رہ سکتی، عجیب و غریب کہانیاں لکھتے رہتے ہو، مجھے تو چور پسند ہیں’۔

‘یہ لو پانی پیو، ٹھنڈے دل و ماغ سے سوچو’۔

‘میں نے سوچ لیا ہے مجھے بس صغیر سے شادی کرنی ہے’۔

‘لیکن یہ تو چور ہے’۔

‘جو بھی ہے، چوروں سے بھی محبت ہوسکتی ہے، جب وہ رات کے اندھیرے میں چوری کرنے جاتے ہیں ساری دنیا سے چھپ کر یہ کتنا ایڈونچر والا کام ہے’۔

‘میں نے اسے عاق کردیا ہے’، بوڑھا چلّایا۔

‘عاق بے شک کردیں لیکن جائیداد صغیر کے نام کردیں’، بھتیجی نے کہا۔

‘تم بھی لالچی ہو صغیر کی طرح’، بوڑھا چلّایا۔

‘کوئی تو مجھے طلاق دلوا دے’، صغیر کی بیوی نے روتے ہوئے کہا۔

‘طلاق، طلاق، طلاق’، صغیر نے چلا کر کہا۔

'فیصلہ ہوگیا'، دوسری لڑکی روتی ہوئی باہر کو دوڑی۔

‘مبارک ہو، ہم پھر مل گئے صغیر'۔

میرا صغیر’، لڑکی خوشی سے چلائی۔

‘میری پیاری’، صغیر نے پہلی لڑکی کا ہاتھ تھاما اور باہر نکل گیا۔

‘عاق، عاق، عاق’، بوڑھا چلاتے ہوئے ان کے پیچھے بھاگا۔

دروازہ بند۔ تاریکی۔

‘دیکھو مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جاؤ! مجھے اکیلے گھر میں ڈر لگتا ہے’

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔