‘اب تم ایک طرف ہوکر بیٹھ جاؤ، یہ فیصلے کا وقت ہے کہانی لکھنے کا نہیں’، صغیر نے کہا۔
’اچھا ہے تم صغیر کے چُنگل سے بچ گئی ہو، یہ چور ہے، بدمعاش کہیں کا’
‘مجھے بچپن ہی سے چوروں نے بہت متاثر کیا ہے’، منگیتر نے کہا۔
‘میں چور نہیں ہوں’ صغیر چلّایا۔
‘یہ دیکھو میں نے ان صفحات پر خود لکھا ہے کہ ‘صغیر ایک چور ہے، ایک رات جب وہ چوری کرکے لوٹا تو اس کے باپ نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا’، کیا یہ عبارت جھوٹ ہے؟’
‘ہاں جھوٹ ہے، میں اس رات دوستوں کے ساتھ تھا’۔
‘نہیں نہیں پوری بات بتاؤ کہ تم دوستوں نے مل کر ایک گھر میں ڈاکا ڈالا تھا اور تمہارا ایک ساتھی گرفتار ہوچکا ہے، لہٰذا تم اب چھپتے پھر رہے ہو’۔
‘صغیرکیا تم چور ہو؟’ اُس کی بیوی نے روتے ہوئے پوچھا۔
‘نہیں یہ سب جھوٹ ہے، اس کہانی کار نے میرے خلاف سازش کی ہے، دراصل یہ اس ڈائن سے شادی کرنا چاہتا تھا آج اسے موقع ملاہے، مجھے پہلے ہی ان دونوں پر شک تھا’۔
‘تم مجھے سچ سچ بتاؤ، کیا تم واقعی چور ہو؟ یہ کنگن، یہ موبائل سب چوری کا مال ہے؟ افف میں برباد ہوگئی۔ ہائے افسوس میں نے تمہارے ساتھ بھاگ کر شادی کیوں کی، اب میں کس منہ سے ماں باپ کے گھر جاؤں گی وہ بھی مجھے پہچاننے سے انکار نہ کردیں’۔
‘یہ جھوٹ ہے’، صغیر چلّایا۔
‘یہ سچ ہے تمہاری انہی حرکتوں کی وجہ سے تمہارا باپ تمہیں نہیں پہچانتا’۔
‘یہ جھوٹ ہے’، صغیر پھر چلّایا۔
‘کیا میں اندر آسکتا ہوں؟’
‘ابّو آپ؟’ صغیر حیران ہوگیا۔
‘میں تمہیں نہیں جانتا کہ تم کون ہو، گزشتہ 10 روز سے میں خود کو سمجھارہا ہوں کہ میری کوئی اولاد نہیں ہے’، بوڑھے نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
‘یہ دیکھو تمہارا باپ تمہیں نہیں پہچانتا، میں نے کہا تھا نا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں کہ صغیر کو اس کا باپ نہیں پہچانتا، اس جھوٹے مکار سے دُور رہو’۔
‘آپ کچھ دیر خاموش رہ سکتے ہیں، یہ ہمارا گھریلو معاملہ ہے، کسی بھی تیسری فریق کو بولنے کی اجازت نہیں’، بوڑھے نے کہا۔
‘صغیر تم نے ہمیشہ میری نافرمانی کی ہے، آہ افسوس! مجھے لوگ اب ایک چور کا باپ سمجھیں گے، میری عمر بھر کی شرافت کو دو کوڑی میں ملادیا۔ جب اسکول اور کالج میں تمہاری شکایتیں آتی تھیں تو تمہاری ماں کہتی تھی بڑا ہوگا تو سمجھدار ہوجائے گا، لیکن مجھے کیا خبر تھی بڑا ہوکر یہ ایک چور بن جائے گا، اور آج تو مجھے یہ بھی پتا چلا کہ تم نے بھاگ کر شادی کرلی ہے؟'
میری بھتیجی میں کیا کمی تھی، یہ بیچاری تمہاری منگیتر اب اس کا کیا بنے گا؟’
‘مجھے طلاق چاہیے’، صغیر کی بیوی چلائی۔
‘تم سب خاموش رہو، مجھے کہانی مکمل کرنی ہے’۔
‘تم خاموش رہو، یہ فیصلے کا وقت ہے کہانی کا نہیں’، صغیر کا باپ چلّایا۔
‘یہ کہانی میں لکھ رہا ہوں، تم سب خاموش رہو’۔
‘بکو مت، فیصلہ کرنے دو’۔
‘اچھا چلو یونہی سہی، کہانی کو رہنے دیتے ہیں۔ انکل میری بات سنیں، کیا آپ اپنی بھتیجی کی شادی مجھ سے کرسکتے ہیں؟’
‘کیوں؟’صغیر کے باپ نے پوچھا۔
‘دراصل مجھے آپ کی بھتیجی سے محبت ہے’۔
‘دیکھا میں کہتا تھا نا اس کہانی کار کا اس ڈائن کے ساتھ کوئی چکر ہے، کیسے اس نے ہمیں پھنسایا ہے’، صغیر نے اپنی بیوی سے کہا جو لگاتار رورہی تھی۔
‘کیا تم مجھ سے شادی کے لیے راضی ہو؟ تمہارے انکل بھی راضی ہیں، صغیر ایک چور ہے’۔
‘نہیں بالکل نہیں، میں تم پاگل کے ساتھ بالکل نہیں رہ سکتی، عجیب و غریب کہانیاں لکھتے رہتے ہو، مجھے تو چور پسند ہیں’۔
‘یہ لو پانی پیو، ٹھنڈے دل و ماغ سے سوچو’۔
محمد جمیل اختر
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔