چوڑیاں بھلے ہی شیشے کی ہوں مگر حوصلے آہنی ہیں
54 سالہ غلام شبیر کے اسٹال پر رش لگا ہے۔ وہ نہ تو کپڑا بیچ رہے ہیں نہ ہی پکوڑے فروخت کر رہے ہیں، بلکہ ان کے اسٹال پر چوڑیاں سجی ہوئی ہیں۔ اسٹین لیس کڑوں، انگھوٹیوں، لاکٹوں، عبادت کے لیے تسبیحیوں اور دیگر جیولری مصنوعات کے ساتھ ساتھ پٹ سن کی ڈوری میں پروئی ہوئی گول اور چھے کونوں والی چوڑیوں کے بنڈل لائن سے لگے ہوئے ہیں۔
مگر شبیر یہاں محض ایک چوڑی فروش ہیں۔
حیدرآباد میں چوڑی پاڑہ نامی علاقے کے رہائشی شبیر کم و بیش 40 سال تک بھٹی کے کام سے منسلک رہے ہیں۔ اب وہ کچا قلعہ کی باقیات کے اندر واقع بابا مکی شاہ کے مزار کے باہر چوڑیاں بیچتے ہیں۔ کچا قلعہ میاں غلام شاہ کلہوڑو نے تعمیر کروایا تھا، انہوں نے ہی 1760ء کی دہائی کے اواخر میں دورِ جدید کے حیدرآباد کی بنیاد رکھی اور اس شہر کا نام حیدرآباد رکھا۔
مزید پڑھیے: حیدرآباد کے چوڑی سازوں کی خطرناک زندگیاں
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ چوڑیاں ان کے گھر میں موجود خواتین نے ڈیزائن کی ہے‘۔
چوڑی پاڑہ شہر سے دور علاقے میں واقع ہے اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، یہ محلہ چوڑی سازوں کا گھر ہے۔ اس علاقے میں عارضی سی صنعتیں اور کام کرنے کے مراکز ہیں جہاں کئی مرد حضرات چوڑی سازی میں مصروف رہتے ہیں۔ چوڑی پاڑہ تنگ اور گنجان آباد گلیوں پر مشتمل محلہ ہے، جن میں بچے کھیل کود میں مصروف نظر آتے ہیں۔
شبیر کے اہلِ خانہ کی طرح حور بانو بھی ایک اور ایسی خاتون ہیں جنہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ چوڑی سازی کے دوران خود سے آشنا ہوچکی ہیں۔
چوڑی پاڑہ میں شام ڈھل چکی تھی، میں جیسے ہی ان کے گھر میں داخل ہوئی تو ایک چھوٹی سی جگہ اور پست چھت کا نظارہ میرے سامنے تھا۔ کمرہ زیادہ روشن نہیں تھا اور کھڑکی کے ذریعے روشنی کی ایک آدھ ہی شعاع داخل ہو پارہی تھی۔ زمین پر لوہے کی چادر بچھی ہوئی تھی جس پر جل رہے شعلوں کی روشنی سے حور بانو کا چہرہ روشن اور اسے پہنے ہوئے عینک کے موٹے شیشوں پر تیز روشنی منعکس ہو رہی تھی۔ وہ چوڑیوں کے جس آخری کھیپ پر کام کر رہی تھیں اسے جلد از جلد نمٹانے میں مصروف ہیں اور اس دوران وہ اپنے پسینے سے شرابور چہرے کو اپنی چادر سے پونچھ رہی ہیں۔
گھریلو محنت کشوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہوم نیٹ پاکستان کے مطابق پاکستان میں کم و بیش ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین گھریلو محنت کش ہیں جو پاکستان کی بے ضابطہ معیشت میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ 3 بچوں کی ماں حور بانو بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں۔
وومن ان ان فارمل ایملائمنٹ: گلوبلائزنگ اینڈ آرگنائزنگ (ڈبلیو ای آئی جی او) نامی ایک عالمی نیٹ ورک بے جو بے ضابطہ معیشت میں حصہ ڈالنے والے غریب بالخصوص خواتین محنت کشوں کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس عالمی نیٹ ورک کے مطابق گھریلو محنت کش سے مراد ’اپنے طور پر‘ کام کرنے والے ایسے محنت کش افراد ہیں جو اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہی مزدوری کے عوض مصنوعات تیار اور خدمات فراہم کرتے ہیں۔
چوڑی سازی کی صنعت ذیلی ٹھیکہ پر گھریلو محنت کشوں سے خدمات حاصل کرتی ہے، جنہیں مڈل مین یا ٹھیکیدار خام مال فراہم کرتا ہے اور فی جُز کے حساب سے پیسے ادا کیے جاتے ہیں۔
بطور ایک بیوہ حور بانو چوڑی سازی کے کام کے ذریعے ہونے والی کمائی سے مطمئن ہیں۔ وہ چوڑیوں کے دو سِروں کو ایک دوسرے کے برابر کرنے کا کام کرتی ہیں جسے سڈائی (sadai) کہا جاتا ہے۔ اس کام سے ہونے والی آمدن سے وہ اس قابل ہوئی ہیں کہ آج ان کے بچے نجی اسکول میں زیرِ تعلیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’جس انداز میں حیدرآباد کی چوڑی سازی کی صنعت نے خواتین کو سہولت فراہم کی ہوئی ہے ویسی سہولت کسی دوسری صعنت نے فراہم نہیں کی ہوگی۔ ہم گھر پر ہی بیٹھ کر کام کرپاتے ہیں جو مجھ جیسی بچوں کی اکیلی والدہ کے لیے سہولت کا باعث بنتا ہے۔‘
سودا سلف لانے کے لیے جب وہ سیڑھیوں سے اتر رہی ہوتی ہیں تب اپنے 10 سالہ چھوٹے بیٹے کو قرآن شریف کی کلاس نہ لینے پر ڈانٹی ہیں اور قرآنی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔