یادیں سہانی، عیدیں پرانی
انسانی ذہن خیالات اور یادوں کی آماج گاہ ہے۔ خیالات خوش کُن بھی ہوتے ہیں اور اندوہناک بھی، یادیں سہانی بھی ہوتی ہیں اور غمناک بھی۔ البتہ بچپن کا زمانہ چونکہ بے فکری و بادشاہی کا ہوتا ہے، اس میں انسان ابھی رنج و الم سے متعارف نہیں ہوا ہوتا، اس لیے بچپن کی یادیں عام طور پر سہانی ہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ اکثر لوگ اپنے بچپن کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں اور اس دور میں واپس جانے کی خواہش کرتے دکھائی دیتے ہیں:
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
ویسے تو بچپن کی ساری ہی یادیں حسین ہوتی ہیں لیکن غالباً ان میں سب سے زیادہ خوش کُن یادوں کا تعلق اس دور کی عیدوں سے ہوتا ہے۔ عید کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا تعلق اپنے شہر سے بہت گہرا ہوتا ہے، کیونکہ عید وہ خاص تہوار ہے جسے ہر شخص اپنے ہی شہر میں منانا چاہتا ہے۔ عید سے پہلے وہ کہیں بھی ہو، اپنے شہر کی طرف لوٹتا ہے۔ سفر میں ہو تو سفر موقوف کردیتا ہے اور عید کے دن سے پہلے پہلے اپنے شہر واپس پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ ہر شخص کے پاس عید کی جو بھی یادیں ہوتی ہیں ان کا تعلق عام طور پر اس کے شہر سے ہوتا ہے۔ انتہائی مجبوری کی حالت میں ہی کوئی اپنے شہر سے دُور عید مناتا ہے۔
میں نے اپنی زندگی اب تک 3 شہروں میں گزاری ہے۔ بچپن خیرپور میں، لڑکپن اور جوانی کراچی میں اور موجودہ ایام اسلام آباد میں۔
1965ء سے لے کر اگلے 7 سال خیرپور میں گزرے۔ اس زمانے میں بچوں کو عام طور پر 6 سال کی عمر سے پہلے اسکول نہیں بھیجا جاتا تھا اس لیے میرا بھی ابھی اسکول میں ایڈمیشن نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ بے فکری اور عیاشی کے دن تھے۔ ہم چونکہ خیرپور کے شاہی بازار سے متصل ایک گلی میں رہتے تھے، اس لیے اپنی گلی سے نکلتے ہی بازار میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ یوں میرے بچپن کی عیدوں کا بازار کی گہما گہمی سے گہرا تعلق ہے۔
عید کے موقع پر بازار تو عام طور سے بند رہتا تھا لیکن کھانے پینے کے مراکز، خصوصاً مٹھائی کی دکانیں بہت اہتمام کے ساتھ کھلی رہتی تھیں۔ مٹھائی والے تو عید سے کئی دن پہلے ہی تیاریاں شروع کر دیتے تھے۔ چاند رات سے پہلے پہلے وہ برفی، قلاقند، میسو اور لڈو پیڑوں سے پاکستان کی قومی عمارتوں کے رنگارنگ ماڈل تیار کرلیتے تھے اور جب عید کی صبح ہم ان دکانوں کے سامنے سے گزرتے تو رنگ برنگے، میٹھے اور خوشبودار مینارِ پاکستان، مزارِ قائد اور بادشاہی مسجد وغیرہ کے ماڈل ہمیں دعوتِ نظارہ دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دکانوں پر مٹھائی خریدنے والوں کے ساتھ ساتھ تماشبینوں کا بھی ہجوم جمع رہتا۔
اگلے ایک دو دن میں یہ سارے دلکش ماڈل مٹھائی کے ڈبوں میں سیر پاؤ ہو کر بک جاتے اور ہم ان کے لیے پھر اگلی عید کا انتظار کرنے لگتے۔
عید پر ہمیں زیادہ سے زیادہ ایک روپیہ عیدی ملا کرتی تھی (اور یہ خاصی معقول رقم ہوا کرتی تھی)۔ بچپن کی عید کا کھلونوں سے بھی بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے اور ایک روپے میں کئی کھلونے آ جایا کرتے تھے۔ اس دور کے کھلونے بھی انوکھے ہوتے تھے۔ مٹی کی کونڈی اور کاغذ سے بنی ڈھولکی پر مشتمل ایک دوپہیوں والی گاڑی، جس کے آگے بندھی ڈوری سے پکڑ کر جب بچے اسے فرش پر کھینچتے تو ربر بینڈ سے بندھی ایک چھڑی تواتر سے ڈھولکی پر ٹکرانے لگتی جس سے ٹک ٹک کی زوردار آواز نکلتی اور ہر طرف عید کا شور مچ جاتا۔