پاکستان

‘دنیا کی کوئی بھی خبر صحافی کی زندگی سے بڑھ کر نہیں‘

پاکستان میں گزشتہ 18 برس کے دوران قتل کیے گئے 72 صحافیوں میں سے اب تک صرف 5 کیسز میں قاتلوں کو سزائیں مل سکیں۔

صحافیوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا مشکل کیوں؟

ساگر سہندڑو

کمزور کاندھوں پر بھاری کیمرا رکھے آس پاس کے شور کو نظر انداز کرکے کسی منظر کو کیمرے میں قید کرکے اسے عوام تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہنے والے ہادی بخش سانگی آج تک 29 مئی 2006 کے اس دن کو نہیں بھولے جب ان کے نوجوان بھتیجے کیمرامین منیر سانگی کو کوریج کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔

منیر سانگی کو عین اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ شمالی سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے نواحی علاقے بقاپور میں 2 قبائل میں ہونے والے تصادم کی کوریج کررہے تھے۔

ٹھیک 13 سال قبل 29 مئی 2006 کو 29 سالہ منیر سانگی کو ابڑو اور انڑ برادریوں کے اسلحہ بردار افراد کے جھگڑے کی کوریج کے دوران گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

منیر سانگی کی ہلاکت کو یاد کرتے ہوئے ان کے چچا کیمرا مین ہادی بخش سانگی آج بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں اور شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے صحافی ریاست میں بے سہاروں کی طرح ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف ہونے والے تشدد، ان کے ساتھ ہونے والی انصافیوں اور انہیں قتل کیے جانے کے کیسز کو حکومت، پولیس اور عدالتیں درست انداز میں آگے نہ بڑھا کر نشانہ بننے والے صحافیوں کے اہل خانہ کو اذیت کی پل صراط پر لٹکا دیتی ہیں۔

ہادی بخش سانگی کے مطابق پاکستان میں قتل کیے جانے والے صحافیوں کے اہل خانہ کو اپنے پیاروں کے قاتلوں کے خلاف قانونی جنگ لڑے جانے کی وجہ سے درپیش خطرات میں ریاست کی جانب سے مناسب سیکیورٹی فراہم نہ کرنا، پولیس کی جانب سے غیر جانبدارانہ اور برو قت تفتیش نہ کرنا اور عدالتوں کی جانب سے فوری انصاف فراہم نہ کرنا دراصل ورثاء کو کیسز واپس لینے کے لیے مجبور کرنے کے مترادف ہے۔

منیر سانگی سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ تھے—فائل فوٹو: ہادی بخش سانگی

انہوں نے بتایا کہ وہ بھی ایسے ہی مسائل اور خود کو مناسب سیکیورٹی نہ ملنے کی وجہ سے اپنے مقتول بھتیجے کے قاتلوں کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوئے۔

ہادی بخش سانگی نے 2014 میں بھتیجے منیر سانگی کو قتل کرنے والے ملزمان کے ساتھ صلح کرنے اور ان سے خون بہا لینے کے بعد عدالت میں کیس ختم کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

اس سے قبل وہ گزشتہ 8 سال سے یکسوئی سے منیر سانگی کے کیس کو عدالتوں اور تھانوں میں لڑتے آ رہے تھے۔

منیر سانگی کے قتل کا مقدمہ لاڑکانہ پولیس تھانے میں درج کرائے جانے کے بعد ان کے قتل کی ابتدائی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ لاڑکانہ میں ہوئی اور آئندہ 8 سال تک اس کیس کی سماعتیں ہوتی رہیں اور ان کے کیس پر سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا۔

منیر سانگی کے قتل کے دن ہی ان کے چچا مجیب الرحمٰن سانگی نے ان کا مقدمہ دائر کروایا تھا، تاہم مقدمے میں نامزد ملزمان کے بااثر ہونے کی وجہ سے فوری طور پر ان کی گرفتاری عمل میں نہ آ سکی۔

ملزمان کی گرفتاری میں تاخیر کے خلاف صحافتی تنظیموں کے مظاہروں اور سماجی تنظیموں کے دباؤ کے بعد پولیس نے جہاں ایک مرکزی ملزم کو گرفتار کیا، وہیں حکومت سندھ نے منیر سانگی کے قتل کیس کی عدالتی تحقیقات بھی کروائی۔

عدالتی کمیشن کی رپورٹ کا عکس—اسکرین شاٹ/سپریم کورٹ

عدالتی کمیشن نے منیر سانگی کے قتل کے لیے 3 افراد عبدالکریم الیاس، ملا مدد الیاس مدو اور ایک نامعلوم شخص کو براہ راست ملزم قرار دیا جب کہ سابق صوبائی وزیر الطاف حسین انڑ سمیت 7 پولیس و سرکاری افسران کو بھی صحافی کے قتل کیس میں بلواسطہ طور پر ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پولیس کو ان کے خلاف فوجداری کیسز کے تحت کارروائی کرنے کی سفارش کی۔

عدالتی کمیشن نے 2 اعلیٰ پولیس افسران اور محکمہ صحت کے ضلعی افسران سمیت تعلقہ افسران کو بھی منیر سانگی کے قتل میں بلواسطہ طور پر ملزم قرار دیا۔

منیر سانگی قتل کیس کی سماعتیں ٹرائل کورٹ لاڑکانہ سے لے کر سپریم کورٹ میں بھی ہوئیں اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر سمیت جسٹس چوہدری افتخار نے بھی ان کے قتل کے نوٹسز لیے۔

صحافتی تنظیموں کے شدید احتجاج کے بعد منیر سانگی کے قتل کا معاملہ ہائی پروفائل کیس بن چکا تھا اور اس وقت کے صدر (ریٹائرڈ) جنرل پرویز مشرف سمیت وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی صحافی کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا تھا، تاہم منیر سانگی کے قتل میں ملوث ایک ملزم ملا مدد الیاس مدو کے علاوہ کسی کو گرفتار نہ کیا جا سکا۔

یہ بھی پڑھیں: یوم آزادی صحافت اور بے سہارا صحافی

منیر سانگی کے قتل کے 2 سال بعد 2008 میں بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے آتے ہی الطاف حسین انڑ کو گرفتار کیا اور بظاہر انہیں صحافی کے قتل کیس سمیت دیگر مقدمات کے تحت گرفتار کیا گیا، مگر سابق صوبائی وزیر نے اپنی گرفتاری کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیا تھا۔

الطاف حسین انڑ پر سابق صدر آصف علی زرداری کی بہن اور اس وقت صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے قتل کی سازش کا الزام بھی لگایا گیا ۔

سابق صوبائی وزیر کی گرفتاری پر صحافیوں کی سیفٹی کے لیے کام کرنے والی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ آف جرنلسٹ نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صحافی کے قتل میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی امید کا اظہار بھی کیا تھا۔

الطاف حسین انڑ کو کچھ وقت جیل میں رکھا گیا لیکن بعد ازاں انہیں صلح ہوجانے کے بعد رہا کردیا گیا اور وہ پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے یوں وہ 2013 میں پی پی کی ٹکٹ پر انتخابات بھی جیت گئے لیکن عدالت نے انہیں مختلف جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے نااہل قرار دیا اور عدالتی فیصلے کے محض چند دن بعد وہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

الطاف حسین انڑ کے انتقال کرجانے، گزرتے وقت کے ساتھ منیر سانگی کے اہل خانہ کے ماند پڑتے جذبے اور کئی سال گزرجانے کے باوجود ملزمان کو سخت سزا نہ ملنے کے بعد مقتول صحافی کے اہل خانہ نے الطاف حسین انڑ کے اہل خانہ سمیت تمام ملزم سے خون بہا کی رقم لے کر کیس کو واپس لے لیا۔

منیر سانگی کے چچا ہادی بخش سانگی نے تسلیم کیا کہ وہ پولیس تھانوں، عدالتوں اور حکومتی دفاتر کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکے تھے، اعلیٰ شخصیات کے خلاف قانونی جنگ لڑتے لڑتے وہ خطروں میں گھر چکے تھے اور انہیں نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیاں ملنے لگی تھیں اور پھر ان کے معاشی مسائل بھی بڑھتے گئے جس وجہ سے انہوں نے مجبوری میں منیر سانگی کے قتل کی خون بہا کی رقم لے کر سیشن کورٹ میں کیس ختم کرنے کی درخواست دائر کی۔

منیر سانگی کو 29 مئی 2006 کو قتل کیا گیا—فوٹو: ہادی بخش سانگی

انہوں نے تسلیم کیا کہ اگرچہ منیر سانگی کا کیس عدالتوں اور پولیس تھانوں میں لڑنے کے دوران انہیں ان کے ادارے نے مدد فراہم کی، تاہم ادارے کی مدد بھی انہیں مکمل سکون اور تحفظ نہ دے سکی جس وجہ سے انہوں نے ملزمان کے ساتھ صلح کرنے میں ہی بہتری سمجھی۔

منیر سانگی کے قتل کی خون بہا لیے جانے سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کے استاد کی حیثیت رکھنے والے سینیئر فوٹوگرافر و کیمرامین ندیم سومرو کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں جانتے کہ انہوں نے خون بہا کس مجبوری کے تحت لی؟

ندیم سومرو غیر ملکی خبر رساں اداروں کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ ملک کے معروف خبر رساں اداروں کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور اس وقت وہ سرکاری نیوز ایجنسی ‘ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان‘ (اے پی پی) کے ساتھ منسلک ہیں۔

ندیم سومرو کے مطابق منیر سانگی کو جان بوجھ کر قتل کیا گیا، تاہم اگر وہ خود کچھ حفاظتی انتظام اپناتے تو وہ بچ سکتے تھے۔

2 قبائل کے درمیان چلنے والی فائرنگ کی کوریج کرنے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی ذاتی رائے ہے کہ منیر سانگی کو فائرنگ کے وقت کوریج کے لیے نہیں جانا چاہیے تھا لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ ایسے خطرے مول لینے کے پیچھے صحافیوں کے اوپر اداروں کے دباؤ کا ہاتھ ہے۔

ان کے مطابق وہ بھی مقامی اخبارات کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور ان سے بھی ایسے خطرناک واقعات کی کوریج کرنے اور جائے وقوع کی تصاویر وغیرہ لانے کا مطالبہ کیا جاتا تھا، عین ممکن ہے کہ منیر سانگی کو بھی اس واقعے کی فوٹیج لانے کا مطالبہ کیا گیا ہو اور انہوں نے دباؤ کے تحت کوئی محفوظ منصوبہ بندی کیے بغیر کوریج کرنے کی کوشش کی ہو۔

ساتھ ہی ندیم سومرو نے کہا کہ پاکستانی صحافتی اداروں اور خصوصی طور پر سندھی زبان کے صحافتی اداروں کو اپنے ورکرز کو سیفٹی تربیت اور آلات فراہم کرنے چاہیے۔

منیر سانگی کی جانب سے فائرنگ کی کوریج کیے جانے کے حوالے سے ان کے ادارے کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ منیر سانگی کو ادارے کی جانب سے اس طرح کی کوریج کرنے کا کوئی دباؤ نہیں تھا، بلکہ وہ خود جذبے کے ساتھ کوریج کرتے تھے۔

انہوں نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ صحافیوں کو خطرناک حالات میں کوریج کرنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے دباؤ ہوتا ہے۔

ہادی بخش سانگی سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں—فوٹو: ہادی سانگی فیس بک

انہوں نے مختصرا بتایا کہ ادارے نے منیر سانگی کے قتل کیس کو اپنا کیس سمجھ کر لڑا اور ان کے اہل خانہ کی ہر طرح سے مدد کی اور مدد کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

منیر سانگی کے ادارے سے وابستہ ایک اور صحافی اعظم زہرانی نے بتایا کہ انہیں کبھی بھی ادارے کی جانب سے کسی خطرناک واقعے کی رپورٹنگ کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی انہیں کبھی کسی ساتھی نے ادارے کے ایسے رویے کی شکایت کی ہے۔

اعظم زہرانی بھی منیر سانگی کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں وہاں موجود چیلنجز کا احساس ہے۔

انہوں نے بھی صحافیوں کو خطرناک حالات میں رپورٹنگ نہ کرنے کے حق میں بات کی اور کہا کہ صحافیوں کو ہر طرح کی رپورٹنگ کرنے سے قبل اس کی کوریج کے دوران درپیش چیلنجز پر ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے، کیوں کہ دنیا کی کوئی بھی خبر انسانی زندگی سے اہم اور بڑی نہیں ہے، صحافی زندہ ہوگا تو وہ اچھی خبریں دے سکے گا۔

مزید پڑھیں: صحافتی اداروں کیلئے مشکل ملک

ان کے مطابق خبر عوام تک پہنچانا صحافیوں کی اولین ترجیح اور ذمہ داری ہے مگر اپنی جان کی حفاظت بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔

لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں بہت سارے پروفیشنل صحافیوں کو اپنی سیفٹی سے متعلق درست معلومات ہی نہیں، بیشتر صحافیوں کے پاس حساس خبر کو نکالنے، اسے رپورٹ کرنے اور ایسی خبر کی کوریج کے دوران درپیش خطرات اور چیلنجز کو سمجھنے کی اہلیت نہیں ہوتی، ان کی نظر میں خبر حاصل کرنا اور اسے ہر حال میں رپورٹ کرنا ہی زندگی کا بڑا مقصد ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں منیر سانگی سمیت گزشتہ 18 برس میں 6 درجن سے زائد صحافی خبر اور معلومات عوام تک پہنچانے کے دوران مارے جا چکے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ 18 برس کے دوران 72 صحافی مارے جا چکے ہیں جن میں سے منیر سانگی سمیت 3 صحافی لاڑکانہ ڈویزن سے تعلق رکھتے تھے۔

الطاف حسین انڑ کو عدالتی کمیشن نے بلواسطہ طور پر صحافی کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا تھا—اسکرین شاٹ/یوٹیوب

صحافیوں کے قتل اور ان کی سیفٹی کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے ’پاکستان پریس فاؤنڈیشن‘ (پی پی ایف) کے مطابق گزشتہ 18 سال میں قتل کیے جانے والے 72 صحافیوں میں سے 48 صحافی خالصتا خبر دینے، معلومات دوسروں تک پہنچانے اور مسائل کی کوریج کے دوران قتل کیے گئے، جب کہ دیگر 24 صحافیوں کو بھی مختلف وجوہات کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔

صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے سب سے بدترین سال 2014 رہا، جس دوران ملک بھر میں 7 صحافیوں کو قتل کیا گیا، دوسرے نمبر پر 2012 رہا، جس دوران 6 صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا، اسی طرح 2010 میں صحافیوں کے قتل کے 7 واقعات پیش آئے۔

پاکستان میں سندھ کو صحافیوں کے حوالے سے مشکل ترین صوبوں میں شمار کیا جاتا ہے، اس کا اندازہ رواں ماہ 4 مئی کو وسطی سندھ کے شہر نوشہروفیروز کے نواحی شہر پڈ عیدن میں قتل کیے جانے والے صحافی علی شیر راجپر کے قتل سے لگایا جاسکتا ہے۔

علی شیر راجپر کو عالمی یوم آزادی صحافت سے ایک دن بعد قتل کیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے لیے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں اور صحافیوں کے خلاف بڑھتے تشدد کے ان ہی واقعات کے باعث پاکستان کی آزادی صحافت کے حوالے سے رینکنگ میں مزید تنزلی دیکھی گئی۔

آزادی صحافت اور صحافتی اداروں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق پاکستان 2018 میں دنیا کے 180ممالک میں آزادی صحافت کے حوالے سے بدترین ممالک میں 139 ویں نمبر پر تھا اور 2019 میں پاکستان 142 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے یعنی پاکستان کی کارکردگی میں تین درجے تنزلی ہوئی۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا شمار آزادی صحافت کے لیے دنیا کے بدترین 40 ممالک میں ہوتا ہے۔

اور یہ واقعات حکمرانوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے وہ متحرک کردار ادا کریں، دوسری صورت میں قتل ہونے والے صحافیوں کے اہل خانہ منیر سانگی کے خاندان کی طرح ملزمان سے خون بہا لے کر معاملے کو رفع دفع کرنے کو ترجیح دیں گے، جس سے ملک سے صحافت اور صحافیوں کے خلاف تشدد میں کبھی بھی کمی واقع نہیں ہوگی۔

اس لیے ضروری بن چکا ہے کہ پاکستان میں پولیس اور عدالتی نظام کو بہتر کرکے ملزمان کو بروقت سزائیں دے کر متاثرہ افراد کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔

پاکستان میں پولیس اور تفتیشی اداروں کی جانب سے کیسز کے دوران تاخیری حربے استعمال کیے جانے کی واضح مثال یہ ہے کہ ملک میں آج تک صرف اور صرف قتل ہونے والے 5 صحافیوں کے ملزمان کو عدالتوں کی جانب سے سزائیں سنائی گئیں۔

پی پی ایف کے مطابق اب تک قتل کیے جانے والے 5 صحافیوں ‘ڈینیئل پرل، نثار احمد سولنگی، عبدالرزاق جاڑا، ولی خان بابر اور ایوب خان خٹک‘ کے کیسز میں عدالتوں نے ملزمان کو سزائیں سنائیں، تاہم ان کیسز میں بھی جن مجرمان کو پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں ان پر تاحال عمل نہیں ہو سکا۔

زیادہ تر کیسز میں عدالتوں نے مجرمان کو قید اور جرمانے کی سزائیں سنائیں، تاہم تقریبا تمام کیسز میں مجرمان نے عدالتی فیصلوں کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں اور مجرمان کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواستوں کے بعد مقتول صحافیوں کے اہل خانہ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کے پیاروں کو قتل کرنے والے قاتل قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر بچ جائیں گے۔

عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر کرنا مجرمان کا قانونی حق ہے، تاہم مقتول صحافیوں کے اہل خانہ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح قانون کے مطابق مجرمان کو درخواستیں دائر کرنے کا حق دیا جاتا ہے، اسی طرح جن مجرمان کو سزائیں دی جاتی ہیں ان پر فوری عمل کرکے قانون پر عمل کیا جائے۔

پاکستان میں قتل کیے گئے 72 صحافیوں میں سے صرف 5 صحافیوں کے کیسز میں ملزمان کو کچھ سزائیں ملیں—فائل فوٹو: سی پی جے/ جیو نیوز/جرنلزم پاکستان


یہ تحریر لکھاری کی پی پی ایف فیلوشپ کا حصہ ہے۔