‘دنیا کی کوئی بھی خبر صحافی کی زندگی سے بڑھ کر نہیں‘
صحافیوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا مشکل کیوں؟
کمزور کاندھوں پر بھاری کیمرا رکھے آس پاس کے شور کو نظر انداز کرکے کسی منظر کو کیمرے میں قید کرکے اسے عوام تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہنے والے ہادی بخش سانگی آج تک 29 مئی 2006 کے اس دن کو نہیں بھولے جب ان کے نوجوان بھتیجے کیمرامین منیر سانگی کو کوریج کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔
منیر سانگی کو عین اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ شمالی سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے نواحی علاقے بقاپور میں 2 قبائل میں ہونے والے تصادم کی کوریج کررہے تھے۔
ٹھیک 13 سال قبل 29 مئی 2006 کو 29 سالہ منیر سانگی کو ابڑو اور انڑ برادریوں کے اسلحہ بردار افراد کے جھگڑے کی کوریج کے دوران گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
منیر سانگی کی ہلاکت کو یاد کرتے ہوئے ان کے چچا کیمرا مین ہادی بخش سانگی آج بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں اور شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے صحافی ریاست میں بے سہاروں کی طرح ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف ہونے والے تشدد، ان کے ساتھ ہونے والی انصافیوں اور انہیں قتل کیے جانے کے کیسز کو حکومت، پولیس اور عدالتیں درست انداز میں آگے نہ بڑھا کر نشانہ بننے والے صحافیوں کے اہل خانہ کو اذیت کی پل صراط پر لٹکا دیتی ہیں۔
ہادی بخش سانگی کے مطابق پاکستان میں قتل کیے جانے والے صحافیوں کے اہل خانہ کو اپنے پیاروں کے قاتلوں کے خلاف قانونی جنگ لڑے جانے کی وجہ سے درپیش خطرات میں ریاست کی جانب سے مناسب سیکیورٹی فراہم نہ کرنا، پولیس کی جانب سے غیر جانبدارانہ اور برو قت تفتیش نہ کرنا اور عدالتوں کی جانب سے فوری انصاف فراہم نہ کرنا دراصل ورثاء کو کیسز واپس لینے کے لیے مجبور کرنے کے مترادف ہے۔